پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف زرداری نے 9 اپریل کو بلاول ہائوس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کِیا اور دُبئی چلے گئے۔ پریس کانفرنس میں موصُوف نے کئی معاملات پر بات کی لیکن مصوّرِ پاکستان علّامہ اقبال کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جنابِ زرداری کے والد مرحوم حاکم علی زرداری کا یہ بیان ریکارڈ پر موجود ہے کہ ’’مولانا حسرت مُوہانی قائدِاعظم سے بڑے لِیڈرتھے‘‘ اور جنابِ زرداری کے ’’رُوحانی والد‘‘ جناب بھٹو کا وہ خط بھی جو انہوں نے مارشل لائی کابینہ کے رُکن کی حیثیت سے صدر سکندر مِرزا کو لِکھا تھا کہ ’’جنابِ صدر! آپ قائدِاعظم سے بھی بڑے لِیڈر ہیں۔‘‘ دراصل بھٹو گھرانے اور زرداری گھرانے کو علّامہ اقبالؒ اور قائدِ اعظمؒ سے کبھی عقیدت نہیں رہی اور نہ جمہوریت سے۔
1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ مِلّت محترمہ فاطمہ جناح صدر ایوب خان کے مقابلے میں اُمیدوار تھیں تو جنابِ ذوالفقار علی بھٹو صدر ایوب کے ’’Covering Candidate‘‘ (متبادل اُمیدوار) تھے۔ صدر ایوب کو خوف تھا کہ ’’کہیں سرکاری ملازم (فیلڈ مارشل) ہونے کی وجہ سے الیکشن کمِشن اُن کے کاغذاتِ نامزدگی مسترد نہ کر دے۔ نان گریجویٹ جنابِ زرداری نے بھی جب صدارتی اُمیدوار کی حیثیت سے کاغذاتِ نامزدگی داخل کئے تھے تو اُن کی ’’Covering Candidate‘‘ ان کی بہن محترمہ فریال تالپور تھیں حالانکہ مخدوم امین فہیم و بیرسٹر اعتزاز احسن ٗ میاں رضا ربانی اور فرحت اللہ خان بابر اور پارٹی کا کوئی اور سینئر لِیڈر بھی ہو سکتا تھا۔
حاکم زرداری 1970ء میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نواب شاہ سے قومی اسمبلی کے رُکن مُنتخب ہُوئے تھے۔ پھر وہ خان عبدالولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی میں چلے گئے۔ 4 اپریل 1979ء کو جنابِ بھٹو کو پھانسی ہُوئی۔ جنابِ حاکم زرداری ٗ جناب آصف زرداری اور محترمہ فریال تالپور کا کوئی بیان ریکارڈ پر نہیں ہے جِس میں انہوں نے بھٹو صاحب کی پھانسی کو ’’عدالتی قتل‘‘ یا انہیں ’’شہید‘‘ کہا ہو۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی اور دوسری سیاسی جماعتوں نے بائیکاٹ کِیا تھا لیکن جنابِ حاکم زرداری اور جنابِ آصف زرداری نواب شاہ سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اُمیدوار بنے اور ہار گئے۔ دونوں باپ بیٹوں نے اُس وقت بھٹو صاحب کو ’’شہید‘‘ کہنا شروع کِیا جب 18 دسمبر 1987ء کو جنابِ آصف زرداری کی محترمہ بے نظیربھٹو سے شادی ہُوئی۔
9 نومبری کی پریس کانفرنس میں جناب زرداری نے کہا کہ ’’صدر ممنون حسین اور وزیرِاعظم نواز شریف کو خط لِکھا جائے گا اور اُن سے کہا جائے گا کہ ’’شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کیس دوبارہ چلایا جائے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ساتھ جو ظُلم ہُوا ہے اُس پر معافی مانگی جائے۔‘‘ عجیب بات ہے کہ ’’دوبار وزیرِاعظم اور پانچ سال تک صدرِ پاکستان رہنے کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو اور جنابِ زرداری نے جنابِ بھٹو کی پھانسی کا کیس دوبارہ نہیں کھلوایا۔ جنابِ آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں بھی مُدّعی نہیں بنے۔
’’تَو دَورونِ خانہ چہ کردی کہ برونِ خانہ آئی؟‘‘
جنابِ آصف زرداری کا یہ بیان خُوب ہے کہ ’’سیاسی جماعتوں میں سے جمہوریت نہ نکالی جائے، گندے انڈے نکالے جائیں۔‘‘ سیاسی جماعتوں خاص طور پر پیپلز پارٹی میں تو جمہوریت کبھی داخل نہیں ہُوئی۔ نکالی کیسے جائے گی؟ بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی بنائی تو اُن کے دو اڑھائی سو دوستوں اور عقیدت مندوں نے انہیں چیئرمین مُنتخب کر لِیا۔ اُس کے بعد پارٹی میں کبھی انتخابات ہی نہیں کرائے گئے۔ بھٹو صاحب کے بعد بیگم نُصرت بھٹو ٗ پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اور اُن کے قتل کے بعد اُن کی مبیّنہ وصِیّت کے مطابق اُن کے شوہر کی حیثیت سے جنابِ آصف زرداری نے اپنے 19سال 3 ماہ اور 6 دن کے بیٹے بلاول زرداری کو ’’بھٹو کا خطاب‘‘ دے کر پارٹی کا چیئرمین نامزد کردِیا اور خود شریک چیئرمین ’’منتخب‘‘ ہو گئے۔
جنابِ زرداری بلاول بھٹو کو کئی بار ’’Launch‘‘ کر چکے ہیں اور جب چیئرمین بلاول کی عمر 26 سال 6 ماہ اور 18 دن ہوئی تو جناب ِ زرداری (عہدے کے لحاظ سے اپنے بیٹے کے ماتحت) فرماتے ہیں کہ ’’بلاول کی سوچ ابھی پُختہ نہیں ہے۔ اُس کی تربیت ہو رہی ہے پختگی آنے کے بعد اُسے لانچ کِیا جائے گا۔‘‘ جنابِ زرداری نے یہ نہیں بتایا کہ سات سال تین ماہ اور 12 دِن پارٹی کے چیئرمین رہنے کے بعد بھی بلاول زرداری کی سوچ میں پختگی کیوں پیدا نہیں ہو سکی؟ اور اب اُن کی تربیت کے لئے اُنہیں کِس طرح کا ’’Syllabus‘‘ پڑھایا جائے گا؟ اور ’’Practical‘‘ کِس طرح کا ہوگا۔ پاکستان میں یا برطانیہ میں؟
کیا چیئرمین بلاول ’’پختگی کے بعد‘‘ پیپلز پارٹی کی قیادت کرنے کے لئے پاکستان واپس آ جائیں گے؟ یا اپنے ’’انکل الطاف‘‘ کی طرح (جن کا جِینا حرام کرنے کے لئے وہ لندن گئے ہیں) لندن سے ہی وِیڈیو لِنک کے ذریعے اپنے والد صاحب (شریک چیئرمین) سمیت پارٹی کے دوسرے عہدیداروں اور کارکنوں کو خطاب کِیا کریں گے؟ شریک چیئرمین محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوسرے دَور میں پارٹی کی چیئرمین اپنی والدۂ محترمہ بیگم نُصرت بھٹو کو (اُن کی غیر حاضری میں) پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس طلب کر کے چیئرمین شِپ سے برطرف کر کے خُود چیئرپرسن ’’منتخب‘‘ ہو گئی تھیں۔ اب جنابِ آصف زرداری پارٹی چیئرمین اپنے اکلوتے فرزند کو ’’معطّل‘‘ رکھیں گے یا کسی مناسب وقت پر برطرف کر دیں گے؟
جِس سیاسی پارٹی میں جمہوریت نہ ہو اگر اُن میں گندے انڈے ہوں تو گِلہ کیسا؟ ضرب اُلمِثل ہے کہ ’’ایک گندی مچھلی سارے تالاب کوگندا کر دیتی ہے۔‘‘ ’’گندے انڈوں‘‘ کی ترکیب کے بھی یہی معنے ہیں لیکن گندے انڈے صاف سُتھرے انڈوں کو اُس وقت خراب کرتے ہیں جب اُن کی ’’ٹُوٹ پھُوٹ‘‘ ہو جاتی ہے۔ صِرف سیاسی جماعتوں میں ہی نہیں بلکہ معاشرے کے دوسرے شعبوں میں بھی گندے انڈے ہوتے ہیں۔ عام طور پر معاشرے کے دشمنوں (مجرموں) کو گندے انڈے کہا جاتا ہے۔ دہشت گرد اور اُن کے سہولت کار ٗ ٹارگٹ کِلرز ٗ تاوان کے لئے پُرامن شہریوں کو اغواء کرنے والے ٗ چور ٗ ڈاکو ٗ بھتہ خور ٗ سرکاری اور غیر زمینوں پر قبضہ کرنے والے ٗ بنکوں سے کروڑوں اور اربوں کے قرضوں لے کر ہڑپ کرنے والے ٗ قومی دولت لُوٹ کر بیرونی بنکوں میں جمع کرانے ٗ وہاں جائیدادیں خریدنے والے و ناجائز کمائی سے کاروبار کرنے والے کیا ہیں؟ اِس بارے میں تو عُلمائے دِین ہی کوئی فتویٰ دے سکتے ہیں۔
غُرت کی لکِیر سے نیچے زِندگی بسر کرنے والے 60 فی صد لوگ جِن کے گھروں میں دو وقت چُولہا نہیں جلتا، جِنہیں بیماری کی صُورت میں علاج کی سہولت نہیں ٗ جن کے بیٹے بیروزگاری کے باعث دہشت گردوں کے ہتھّے چڑھ کر خُودکُش حملہ آور بن جاتے ہیں ٗ جن کی شادی کے قابل بیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی بُوڑھی ہو جاتی ہیں ٗ انہیں جمہوریت ٗ جمہوری اور غیر جمہوری لِیڈروں نے کیا دِیا؟ کوئی سابق یا موجودہ حکمران اپنی یادداشتیں لِکھے یا حکومت کے قِیمتی راز سینے میں دفن میں کر کے قبر میں اُتر جائے تو کسی کو کیا؟ بہرحال ’’ارشاداتِ عالِیہ و غالِیۂ زرداری‘‘ سے نئی نسل کے لوگوں کی معلومات میں اضافہ ضرور ہُوا ہے۔ بائی دی وے جناب زرداری کے ’’ناپختہ‘‘ بیٹے میں پختگی کتنے سالوں میں آ جائے گی؟