پرانی بات ہے حکومت کے اقدامات کے خلاف طالب علم نعرے لگاتے سڑکوں پر سراپا احتجاج ہوئے اور پھر طالب علموں کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کو آنسو گیس اور لاٹھی چارج بھی کرنا پڑا جس کے بعد طالب علم مشتعل ہوئے اور مختلف ٹولیوں میں شاہرائوں پر پتھرائو کرنے لگے اگرچہ ان حالات میں اکثر مارکیٹوں میں شٹر ڈائون ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے جو دکان کھلی نظر آتی ہے۔ مظاہرین اسے لوٹنے، اس کے شیشے توڑنے یا پھر آگ لگانے سے بھی نہیں چوکتے، اسی طرح ان کا غصہ سڑکوں پر چوراہوں پر لگے ٹریفک سنگلز پر بھی نکلتا اور وہ سب سے پہلے پتھرائو اور ڈنڈوں سے ان کو توڑنا فرض اولین سمجھتے تھے اسی طرح راہ میں آنے والی مسافر بسوں کی بھی توڑ پھوڑ کی جاتی تھی اس میں سرکاری اور غیر سرکاری کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا۔ پارکنگ میں کھڑی کاریں اور موٹر سائیکل جلانا بھی اس معمول کا حصہ ہوتا تھا۔
کل کی بات ہے دہشت گرد لاہور میں چرچ پر خود کش حملہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہو جاتے ہیں اور مشعل ہجوم وہاں سے نعرے لگاتا فیروز پور روڈ پر آ جاتا ہے اور قانون کو ہاتھ میں لے کر دو افراد کو صرف شبہ میں زندہ جلا دیتا ہے اور میٹرو بسوں پر پتھرائو کے ساتھ میٹرو کی گزر گاہ ان کے ٹرمینلز پر توڑ پھوڑ کرنے کے ساتھ راہ میں نظر آنے والی گاڑیوں کو بھی نہیں چھوڑتا۔ اگرچہ پولیس کارروائی کرتی ہے مگر اتنے بڑے ہجوم کو قابو کرتے کرتے سرکاری املاک کے ساتھ پرائیویٹ املاک بھی اس ہنگامہ آرائی کی نذر ہو جاتی ہے۔
سانحہ کوئی بھی ہو کہیں بھی ہو اسکے نتیجہ میںو ردعمل ہوتا ہے مگر جوش میں ہوش کا دامن چھوڑنا کہاں کی دانشمندی ہے۔ اسی طرح سیاست میں خاص طور پر جب احتجاجی تحریکیں زور پکڑتی ہیں اور قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو اس کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے اور اس میں ناخوشگوار واقعات رونما ہوتے ہیں زیادہ پرانی بات نہیں لاہور کے علاقہ ماڈل ٹائون میں ’’گلوبٹ‘‘ کی کھڑی کاروں پر ’’ڈنڈہ گردی‘‘ کے مناظر براہ راست دنیا بھر دیکھے گئے۔
احتجاج ہر شہری کا آئینی حق ہے مگر اسے قانون کے دائرے میں رہ کر ہونا چاہئے، آج ترقی پذیر اور غریب ممالک میں جہاں آبادی میں بے تحاشا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے وہاں وسائل کی کمی بھی اسی حساب سے ہو رہی ہے اور اس کا نتیجہ بے روزگاری اور مہنگائی کی صورت سامنے آتا ہے، یہی وجہ ہے جن ممالک میں مہنگائی بڑھتی ہے تو وہاں مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح جب آمدن کم اور خرچ زیادہ ہو گا تو وہ خاندان ہو یا ملک اسے ’’قرض‘‘ کا سہارا بھی لینا پڑے گا اور پھر وہی ’’قرض‘‘ آہستہ آہستہ ’’پیر تسمہ پا‘‘ کی طرح اس کے گرد گھیرا تنگ کرتا چلا جائے گا اور یہیں سے وہ گھر ہو یا ملک مشکلات کا شکار ہوتا چلا جائے گا آج اپنے وطن عزیز میں دیکھ لیں غربت کے ہاتھوں والدین اپنے بچوں کو فروخت کرنے کے لئے ’’سربازار‘‘ کھڑے نظر آتے ہیں، اس طرح مہنگائی یا لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام بھی جب اپنے مطالبات کے لئے حکمرانوں کی توجہ دلانے کے لئے سڑکوں پر آتے ہیں تو ان میں ایسے ’’عناصر‘‘ بھی شامل ہو جاتے ہیں جن کا مطمع نظر محض حکومت مخالفت ہوتا ہے یا ملک دشمن ’’ہوتے ہیں‘‘ وہی ان مظاہرین میں شامل ہو کر سرکاری اور غیر سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتے۔
دیکھا جائے تو سڑکوں سے لے کر کھمبوں تک جو بھی حکومتی نگرانی میں عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں وہ عوام کو بہتر سہولیات کے لئے ہی ہوتی ہیں اور ان میں خود عوام کے پیسے بھی شامل ہوتے ہی۔ لہذا ان املاک کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے والے وطن دوست نہیں ہوسکتے۔ ایسے عناصر پر نظر رکھنا عام شہری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ٹریفک سگنلز ہوں یا بس سٹاپ یا پھر عوام کو سفری سہولت کے لئے زر کثیر سے بننے والی ’’میٹرو‘‘ یہ سب عوام ہی کی ہیں ان کی حفاظت ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہنگامہ آرائی اور احتجاج سے مسائل حل نہیں ہوتے اس کے لئے مثبت فکر اور مسلسل عمل کی ضرورت ہے بے روز گاری اور حق تلفی کی تلافی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن کسی بھی واقعہ کی صحت کے بارے میں جاننا اور آگاہی معاشرے کے فرائض میں شامل ہے ،اس لئے جہاں تک ہو سکے ہنگامہ ّرائی اور احتجاج میں شریک ہو نے سے پہلے یہ یقین کر لیا جائے کیا یہ کارروائی جائز ہے اور احتجاج سے مثبت نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں یا نہیں بات اک ذرا سی سوچ کی ہے اصلاح ،فلاح اور بہتری کی کوشش زیادہ دور نہیں ۔
احتجاج اورقومی املاک کی توڑپھوڑ
Apr 11, 2015