کورنتھ ہر ۔۔ ایک تعمیراتی اعجوبہ

یونان میں آپ کو یونانیوں کے بعد جو چیز سب سے زیادہ ملے گی وہ اعلیٰ تعمیراتی نمونے ہیں۔کہا گیاہے کہ Visual Arts(بصری فنون) کی تین صورتیں ہیں__اول Painting(مصوری) جو دیکھنے کے لیے ہوتی ہے،دومSculpture (مجسمہ سازی )جو چل کر گزر جانے کے لیے ہوتی ہے اور سومArchitecture(عمارت کاری) جس میںسے چل کر گزرناہوتاہے ۔ لونگ فیلو (Longfellow) کے مطابق عمارت کاری ©"©©"Noblest(معزز ترین )فن ہے اور یہ بات تو سب مانتے ہیں کہ فن جتنا پرانا ہواتنا ہی بیش قیمت ہوتا ہے۔یونان میں آثارِ قدیمہ کی صورت میں یہ فن چار ُسو پھیلا ہوا ہے۔دورہ¿ یونان کے اگلے مرحلے میں ہمیں ایتھنز چھوڑ کر آگے بڑھنا اور بالآخر ایک قدیم تاریخی شہر ڈیلفی(Delphi)پہنچنا تھا جوایک پہاڑی ڈھلان پر واقع ہے۔ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ پورے یونان میں ہر طرف پہاڑ نظر آتے ہیں، وہ بھی چٹیل اور بے آب و گیاہ۔انھیں دیکھ کر دل پرہیبت طاری ہوجاتی ہے اور بے ساختہ ذہن میں یہ ارشادباری گونجنے لگتاہے:”(یہ لوگ دیکھتے نہیں)پہاڑوں کی طرف کہ کس طرح کھڑے کیے گئے ہیں؟“(الغاشیہ:19)۔راستے میں ہماری سیاحتی بس کورنتھ نہر(Corinth Canal)پر رکی جوخلیج کورنتھ(Gulf of Corinth)کو خلیج سارونک (Gulf of Saronic)سے ملاتی ہے۔یہ ایک تعمیراتی اعجوبہ ہے۔نہر کا نظارہ ایک پل پر سے کیا جاتا ہے جہاں سے لگ بھگ دو سو فٹ نیچے دیکھیں تو نہر ایک چاندی کی پٹی کی مانند نظر آتی ہے۔اس میں کچھ کشتیاں اور چھوٹے جہاز(Ferries)چل رہے تھے۔کورنتھ ایک ساحلی شہر ہے جس کی آبادی تقریباََ 25ہزار ہے۔نویں صدی قبل مسیح میں یہ شہر تجارتی طور پر بہت اہمیت رکھتا تھا۔146قبل مسیح میں اس پر رومیوں نے قبضہ کر لیا اور آگسٹس(Augustus)نے اُسے اپنا صوبائی دارالحکومت قرار دیا۔تاریخ کے بہت سارے نشیب وفراز دیکھنے کے بعد بہرحال یہ شہر 1822ئ میں آزادیونان کا حصہ بنا۔کورنتھ نہر(لمبائی4میل اور چوڑائی 70فٹ) کی تاریخ بہت دلچسپ ہے۔اس کی تعمیر کا آغاز پہلی صدی عیسوی میں ہوا لیکن ارضیاتی تبدیلیوں اورمالیاتی مسائل کے باعث رک گیا۔اس نہر کے تعلق سے تو ہماتی کہانیوں کے مطابق یہ ایک منحوس نہر ہے۔اسے تعمیر کرنے والا پہلا ٹھیکے دار دیوالیہ ہوگیا۔اسی دوران ایک نجومی نے پیش گوئی کی کہ جو بھی اس نہر کی تعمیر شروع کرے گا وہ قتل کردیا جائے گا اور یہی ہوا۔تین رومی بادشاہوں نے اس مشن پر کام کا آغاز کیا لیکن تینوں یکے بعد دیگرے قتل کردیے گیے۔اس میں قلوہ پطرہ کاعاشق جویس سیزر(Julius Caesar)بھی شامل تھا۔نیرو(Nero)وہ پہلا رومی بادشاہ تھا جس نے کسی بھی قسم کے وہم کوبالائے طاق رکھتے ہوئے نہر کی ازسرِنو کھدائی کا بیڑہ اٹھایا۔67ئ میں اس نے کدال چلا کر ایک بالٹی بھر مٹی نکالی اور تعمیر نو کا آغاز کیا۔اس مقصد کے لیے چھے ہزار یہودی قیدی استعمال کیے گئے جنھیں تین گروپوں میں تقسیم کرکے کام پر لگایا گیا۔کچھ عرصے بعد نیرو کا انتقال ہوگیا جس کی وجہ سے کام پھر رک گیا۔یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ نیرو کا انجام بھی عبرت ناک ہوا۔ایک سال بعد ہی (68ئ میں) اس کی فوج نے بغاوت کردی تو وہ روم سے بھاگ نکلا۔پادریوں نے اُسے اپنی ماں اور دو بیویوں کے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی مگر پھانسی سے پیشتراس نے خودکشی کرلی۔تاہم بعد میں آنے والے حکمرانوں نے نہر کی تعمیر کا کام جاری رکھا۔ بالآخر1893ئ میں تعمیر مکمل ہوگئی اور اُسی سال اسے لوگوں کے لیے کھول دیا گیا۔یہ عجیب بات ہے کہ اگرچہ نیرو نے ”جان پر کھیل کے“ نہر کی تعمیرکا کام شروع کرایا تھا مگر پُل پر بنے ہوئے چھوٹے سے خوبصورت پارک میں اس کے بجائے ہر کولیس کا مجسمہ کھڑا ہوا ہے حالانکہ نہرآج 2ہزار سال بعد بھی اسی راستے پر بہہ رہی ہے جو نیرو مقرر کر گیا تھا۔(حد ہوتی ہے ناشکری کی!) ہرکولیس اہلِ یونان کے لیے فنون و ادب میں قوت کی علامت ہے ۔اُس کے مجسمے میںاُسے قوی ہیکل شیر کی کھال زیب تن کیے کمان اور عصا ہاتھ میں لیے ہوئے دیکھا جاتا ہے۔کسی حسینہ کی زلفِ گرہ گیر کی طرح بل کھاتی ہوئی نہر کا نظارہ اتنا دل کش تھا کہ ہٹنے کو جی نہیں چاہ رہا تھا لیکن ہماری گائڈایوا (Eva)ہر وقت جلدی میں رہتی تھی۔ایک ساتھی سیاح نے تو ایک روز آپس کی گفتگو کے دوران کہاکہ شاید اس کی دنیا میں آمد میں بھی ڈیڑھ دو ماہ کی عجلت ہوئی ہوگی۔ایک روز ہم نے موصوفہ سے بہ صد احترام عرض کیا کہ آپ جگہوں، شخصیات، مجسموں وغیرہ کا تعارف کراتے وقت ذرا آہستہ بولیں تو عنایت ہوگی۔ہم دو تین ایشیائی آپ کی گفتگو کا 80فی صد نہیں سمجھ پاتے۔انھوں نے خندہ پیشانی سے ہماری معروضات سنیں اور ہمیں یقین دلایا کہ ہم آئندہ واضح فرق محسوس کریں گے۔انھوں نے اپنے وعدے کا پاس کیا اور پہلے سے زیادہ تیز بولنے لگیں۔وہ نہایت تیکھے اور دل کش نقوش کی مالک تھیں لیکن ہم جومحض انھیں سننے کی خاطر ان کے قریب رہتے تھے اس کے بعد سے دور دور رہنے لگے۔ اب وہ یہ تو کہنے سے رہیں کہ :
دور دور رہ کے گزارا نہیں ہوگا
ہمارا نہیں ہوگا، تمہارا نہیں ہوگا
ہماری اگلی منزل ایپی ڈارس (Epidaurus)کا قدیم شہر تھا۔ہم یہ عرض کردیں کہ یونان میں آپ کو مختصر لباس کے علاوہ ہر چیزقدیم ہی ملے گی۔پرانے وقتوں میں یہاں ایک فرد کے لباس کے لیے کپڑے کا ایک پورا تھان درکار ہوتا تھا۔اب ایک تھان( درزی کے بیوی بچوں سمیت ) پورے محلّے کے لیے کافی ہوگا۔بتایا گیاکہ اس شہر کی بنیاد چھٹی صدی قبل مسیح میں پڑی تھی۔اس کا نام یونانی دیوتا اپالو(Appollo)کے بیٹے اسیپےس(Ascepius)کے نام پر رکھا گیا تھاجو بیماریوں سے نجات کا دیوتاسمجھا جاتا تھا۔خود اپالو کا تعارف یہ ہے کہ وہ یونانی دیومالا کا حسین ترین دیوتا تھا۔اہلِ یونان اُسے تمام دیوتاﺅں سے افضل مانتے تھے۔وہ بہت اچھا گویّا اور ساز ندہ تھا۔ڈیلفی کے مندر میں اس سے مرادیں مانگی جاتیں اور غیب کی باتیں پوچھی جاتی تھیں۔ایپی ڈارس اپنے دور کا ایک خوشحال شہر تھا۔مال و دولت کے فراوانی کے باعث شہر کے لوگ خوش باش اور سیر تفریح کے شوقین تھے۔ان لوگوںنے بڑے بڑے یادگار ی مجسمے اور کھیل کے میدان بنائے کیے ۔وہ سب تو ختم ہوگئے لیکن ان کا تعمیر کردہ ایک وسیع و عریض تھیٹر آج بھی اپنی پوری آن بان اورشان کے ساتھ موجود ہے۔یہ ڈراموں، تماشوں، نمائشوں اور سماجی اجتماعات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یوں سمجھےے کہ شہر کا ” ایکسپوسینٹر“ ہے مگر ہمار ے ایکسپو سینٹر سے کئی گنا بڑا ہے۔اس کا نقشہ چوتھی صدی قبل مسیح میں مکمل ہوا۔ابتدا میں یہاںتماشائیوں کے بیٹھنے کی 34 قطاریں تھیں۔رومی دور میں 21کا اضافہ ہوا ہے۔تھیٹر میں 14ہزارافراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔لاﺅڈ اسپیکر اس وقت تک ایجاد نہیں ہوا تھا لیکن اُس دور کے انجینئرز نے اسٹیج کو اس انداز سے ڈیزائن کیا تھا کہ اداکاروں کی آوازیں تھیٹر میں بیٹھے ہوئے ہر شخص تک پہنچ جاتی تھیں۔(آج بھی اس تکنیک کا ہلکاسانمونہ ہمیں ٹھٹہ کی شاہجہانی مسجد میں ملتا ہے جس کے ایک حصے میں کھڑے ہوکرآپ بلند آواز میں کچھ کہیں تو آواز دُورہال کے اگلے سر ے تک سنی جاسکتی ہے۔)ہم نے دیکھاکہ ٹولیوں میں سیاح اپنے اپنے گائڈ کی رہنمائی میں آرہے تھے اور اپنی آواز کا جادو جگارہے تھے۔لمحہ بھر کے لیے ہماری باسی کڑی میں بھی ابال آگیا۔بیگم سے سینکڑوں میل دور تھے لہٰذا پکار اٹھے:آواز دے کہاں ہے؟(گےت کا اگلا بول سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتا لہٰذاہم اُسے حذف کر گئے۔)

ای پیپر دی نیشن