ہفتہ رفتہ مشرق وسطیٰ واقعات اور پاک سعودی تعلقات کے عروج اور مزید ارتقاء کا بہت عمدہ منظرنامہ رہا ہے مگر اس منظرنامے میں مولانا فضل الرحمان کی سیاسی حیثیت بذریعہ سعودی عرب، امام کعبہ الشیخ صالح محمد، سعودی وزیر مذہبی امور الشیخ صالح بن عبدالعزیز بہت زیادہ نمایاں ہو گئی ہے جس کا دوٹوک نقصان صرف حکمران مسلم لیگ (ن) اور شریف برادران کی سیاست اور حکومت کو ہوا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے بلاشبہ جمعیت العلمائے اسلام کے عمومی تنگ نظر و جامد رویئے میں سیکولرازم اور لبرل ازم کا بھرپور ’’تڑکہ‘‘ لگا کر جمعیت کو اور خود کو عالمی سطح پر بطور قابل قبول حکمران شخصیت و جماعت بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے جو بظاہر بہت کامیاب بھی دکھائی دیتی ہے۔ ہم خود مولانا کے ساحرانہ انداز تکلم و تخاطب اور انکے سیاسی اسلوب و تجربے میں علم الکلام و منطق کے بھرپور استعمال سے کافی متاثر بھی ہوئے ہیں مگر ’’وجدان‘‘ کی آنکھ بھی تو واضح طور پر ان کے ماضی کے طویل دلچسپ تجربے میں موجود کامیابیاں حیرت انگیز طور پر سامنے لا رہی ہیں جس کا لازمی نتیجہ صرف حکمران شریف خاندان کی واحد سیاسی قوت کو پاش پاش کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔ مثلاً مولانا فضل الرحمان اور علمائے دیوبند کا ماضی کرنل قذافی اور پھر صدام حسین جیسے مکمل کمیونسٹ سیکولر مگر سعودی دشمن سے مکمل طور پر وابستہ نظر آتا ہے مگر جب یہ دونوں عرب منظرنامے سے اپنی دولت اور حکومتوں کے حوالے سے معدوم ہو گئے تو مولانا خراماں خراماں سعودی شاہی خاندان کے خیموں میں آرام سے یوں داخل ہو چکے ہیں کہ اب سعودی خیمے کے فاتح و مالک و مختار وہی دکھائی دیتے ہیں۔ ہم جمعیت العلمائے اسلام کے جامد اور تنگ نظر رویئے میں موجودہ ارتقائی مرحلے سے بہت خوش ہیں مگر کیا محمد نواز شریف وزیراعظم اور صدر مسلم لیگ (ن) اور محمد شہباز شریف وزیراعلیٰ اور صدر مسلم لیگ (ن) پنجاب اپنی طرف آتی مولانا نامی سفاک و بے رحم و متلون سیاسی مزاج نامی تباہی سے آگاہ بھی ہیں؟ مولانا سیاسی طور پر ہمیشہ حکمران ذہن کے ساتھ رہے ہیں اور اگر طے شدہ اپوزیشن کردار قبول کرتے تھے تو اسکے بھی جملہ مالی و سیاسی و سٹرٹیجک فوائد کو نہایت چابکدستی سے اُچک لینے کی بھی کلام و منطق نامی ساحرانہ عادت کو پورا کرتے رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کا شریف خاندان کے ساتھ اسی طرح کا معاملہ رہا ہے جیسا صدر آصف زرداری کی حکومت اور پارٹی سے رہا تھا۔ صدر زرداری سے جملہ فوائد انہوں نے حاصل کئے تو نظریاتی کونسل کو جامد رویئے کردار کیلئے بھی حاصل کیا پھر نواز شریف سے بھی۔ مشرف سے مل کر مجلس عمل (ایم ایم اے) بنائی تو موجود مواقع سے مالی و سیاسی بھرپور فوائد سے دل کھول کر جھولی بھری تھی۔ پختونخوا کی اکرم درانی نامی حکومت بھی حاصل کی تھی۔ اسی عہد میں مذہب و شریعت و جہاد کے غلط تصور کی بنیاد پر ایسے کچھ گمراہ اور جاہل ’’عناصر‘‘ کو بھرپور ’’مواقع‘‘ ملے جو بعدازاں ریاست و فوج کیلئے دردسری بن گئے اور جنرل کیانی کو مجبوراً سوات میں فوجی ایکشن لینا پڑا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کا اتحادی رہ کر کس چابکدستی اور بے رحمی سے وہ اتحادی فلور کراسنگ کرتے ہوئے صدر زرداری عہد کی محبت سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا حیدری کو بناتے بناتے مسلم لیگ (ن) اور امیدوار چیئرمین کے لیگی مدبر و بزرگ راجہ ظفرالحق کے ممکنہ کامیاب انتخاب کو زندہ درگور کر دیا تھا۔ نظریاتی کونسل سے مولانا شیرانی نے حکومتی شریف اتحادی ہوتے ہوئے بھی اتحادی لیگیوں کا ناطقہ بند کر دیا تھا اور وہ جامد و بے لچک رویئے سے شریف حکومت نامی کشتی کو ’’بھنور‘‘ کی نذر کرتے ہوئے مسرتیں حاصل کیا کرتے تھے۔ اب ان کی ’’آنکھ‘‘ نیا مذہبی، سیاسی اتحاد بنانے کی طرف ہے جس کا ’’اٹ کھڑکا‘‘ اور تصادم تو ’’صرف‘‘ مسلم لیگ (ن) کے سیاسی مستحکم مستقبل کو ہے۔ کہنے کو عمران خان لیگی سیاست و حکومت کے دشمن ہیں مگر جو ’’ولن‘‘ کردار مولانا کا رہا ہے وہ مستقبل کی طوفانی سونامی نہیں بنے گا؟ لہٰذا مسلم لیگ (ن) کے ارباب تدبر و فراست ’’مولانا‘‘ … تباہی سے اپنے لئے حفاظتی بندوبست کر لیں۔ اب مولانا نامی جمہوری سیکولر مذہبی آندھی نے بہت سے لیگی ریت کے گھروندے بھی نیست و نابود کرنے ہیں جبکہ عمران خان پہلے سے بھی زیادہ طاقتور اخلاقی و سیاسی منظرنامے تخلیق کر سکتے ہیں۔ جہاں تک زیرتکمیل اسلامی عسکری اتحاد کی بات ہے تو اس کا راستہ روکنے کیلئے ہمارے پڑوسی ایران نے اپنے سیکولر و لبرل اینکرز اور کالم نگار حامیوں کے ذریعے انگریزی مطبوعہ صحافت اور الیکٹرانک میڈیا میں بہت بڑی یلغار کر دکھائی ہے مگراس میں ایرانی ذہن کو مذہبی تعصب و نفرت کا زہریلا ہتھیار استعمال کرنے کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی تواب وہ تجارت کے پلیٹ فارم سے پاکستان کو نہایت سخت رویہ سے دوچار کرنے جارہا ہے جس کا اجلاس تہران میں ایک ہفتے بعد متوقع ہے اور ہمارے وزیر تجارت خرم دستگیر کیلئے نہایت مشکل مرحلہ درپیش رہے گا۔ اب ایران مکمل طور پر بھارتی و امریکی پاکستان دشمن منصوبوں کی مکمل مدد کرے گا بھلے سے اسرائیل بھی بھارت کے ساتھ کھڑا ہو۔ ہفتہ رفتہ میں کافی شور تھا کہ ایران کو کیوں نہیں اسلامی عسکری اتحاد میں شامل کیا جارہا ہے؟ مگر ہمارا مؤقف ہے کہ ایران تو خود ہی عرب دشمن اور سعودی دشمن بنا ہوا ہے۔ اس کا یکطرفہ و ازخود اپنایا ہوا منفی رویہ عرب و سعودی تصادم میں مضمر ہے۔ ایرانی حاجیوں کو بھجوانے کیلئے اگر ایرانی حکومت اور ولایت فقیہہ نے ازخود سعودی عرب سے انکی شرائط پر مفاہمت کر لی ہے تو اسلامی عسکری اتحاد میں شمولیت کی خواہش اور کوشش کیوں ایران خود نہیں کرتا؟ جو چیز ایران خود حاصل کرنے کا متمنی نہیں وہ اسکی جھولی میں ڈالنے کے ہمارے مشورے کس قدر احمقانہ روش ہیں؟ ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ ہمارے عوام میں سعودی شاہی خاندان اپنے نہایت مضبوط دائمی پاک دوست مددگار رویئے سے اگر محبوب ہے تو خدمت حرمین شریفین کا دائمی اعزاز تو صرف ’’اکیلے‘‘ امام کعبہ کی پاکستان میں تشریف آوری اور ان کیلئے عوامی بھرپور پذیرائی کا سمندر سعودی سرزمین کے ساتھ عوامی روحانی و قلبی یکجائی کا مظہر ہے۔ یہ سب کچھ اسلامی عسکری اتحاد، سعودیہ اور جنرل راحیل شریف کو ناکام و نیست و نابود کرنے کے متمنی عناصر کو بھی برداشت کرنا پڑیگا۔ کچھ نادان حکومتی حلقے اب جنرل راحیل شریف کے ساتھ کرتے ہوئے اسلامی عسکری اتحاد اور پاک سعودی اہم ترین مفادات کو خود ہی تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہیں۔ لیگی تدبر و فراست کہاں لسی پی کر گہری نیند سو گئی ہے؟ امام کعبہ کے سامنے صدر ممنون حسین کا عالمی علماء کونسل قیام کی تجویز پیش کرنے کی ہم بھرپور حمایت کرتے ہیں۔
امام کعبہ کیلئے عوامی پذیرائی
Apr 11, 2017