کتاب ’’دائروں کے درمیاں‘‘ دس کہانیوں پر مشتمل ہے ظفر صاحب نے کچھ نئے تجربے کئے ہیں اور عام ڈگر سے ہٹ کر کہانیاں لکھی ہیں۔ جس معاشرے میں مسائل کا کوہ گراں ہو مصائب کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہو۔ مجبور، مقہور اور پسے ہوئے لوگوں کی فوج ظفر موج ہو، مفلوج سوچ ہو، مدقوق منطق ہو وہاں ABNORMALITIES جنم لیتی ہیں۔ رویوں میں توازن نہیں رہتا۔ انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے مفلسی جس لطافت کو مٹا دیتی ہے۔ جہاں لطافتیں معدوم ہو جائیں وہاں ان گنت مجبوریاں جنم لیتی ہیں۔ جب خلش ختم ہو جائے تو پھر ضمیر اسباب مفلساں کی طرح بک جاتے ہیں۔
کتاب کے تعارفی پیرا میں ظفر محمود صاحب نے مشتاق یوسفی صاحب کے حوالے سے بیورو کریٹس کے المیے کا ذکر کیا ہے۔ یوسفی صاحب نے قدرت اللہ اور الطاف گوہر کے متعلق لکھا۔ ’’الطاف گوہر کی مصیبت یہ ہے کہ کچھ بھی کریں، کہیں بھی جائیں یا کچھ بھی نہ کریں، کہیں بھی نہ جائیں کہلائیں گے سابق بیورو کریٹ، غالباً کہنا یہ چاہتے تھے کہ نوکر شاہی ایک ایسا داغ ہے جو کبھی نہیں مٹتا۔ دکھیارا بیورو کریٹ اگر دنیا تیاگ دے اور سادھوں، سنیاسیوں کی طرح بدن پر بھبھوت مل کر چھائوں میں دھونی رما کر تپسیا کرے تو بھی دنیا کی نظروں میں وہی کا وہی یعنی سابق بیورو کریٹ ہی رہے گا‘‘۔ مزاح کی حد تک تو شاید یہ بات درست ہو وگرنہ مرا ہوا ہاتھی بھی سوا لاکھ کا ہوتا ہے۔ یہ اپنے نام کے ساتھ کبھی بھی پنشن یافتہ نہیں لکھتے کیونکہ انکے خیال میں پنشن یافتہ بڑا حواس باختہ لفظ ہے جس سے منشیانہ بو آتی ہے۔ یوسفی صاحب کے علم میں نہیں تھا کہ ایسی بات مختلف پیرائے میں مصطفیٰ زیدی نے کہی تھی انہوں نے لکھا۔ ’’میرا المیہ یہ ہے کہ افسروں میں مجھے شاعر سمجھا جاتا ہے اور شاعر مجھے نوکر شاہی کا مکمل پرزہ سمجھتے ہیں۔ یہی بات برلاس صاحب نے شعر میں کہی۔ ’’افسروں میں شاعر ہوں، مشاعروں میں افسر ہوں۔ ظفر محمود صاحب نے غالباً کسر نفسی سے کام لیا ہے افسروں میں انہیں ڈاکٹر صدیقی کے بعد سول سروس کا Brain سمجھا جاتا ہے ادیبوں کو اپنی تحریروںسے نہ صرف چونکا دیا ہے بلکہ کافی حد تک ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ قدرت اللہ شہاب بھی ہر فن مولا تھے۔ ان کی خدا داد انتظامی صلاحیتوں کو حفیظ جالندھری نے ایک شعر میں بیان کر دیا۔
جب کہیں انقلاب ہوتا ہے
قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے
زمانہ بدلتا رہا۔ مکان بدل گئے۔ مکین ابھرتے ڈوبتے رہے لیکن یہ برگد کے درخت کی طرح قائم و دائم رہے۔ اگر ایک مخصوص ٹولہ ان کی مدح سرائی میں دن رات ایک نہ بھی کرتا تو بھی یہ اپنے ادبی مقام کا تعین خود کر گئے تھے۔ آج انکی شناخت سابق بیورو کریٹ نہیں بلکہ ایک عظیم ادیب ہونا ہے۔ اقتدار کی دھوپ چھائوں تو ایک عرصہ ہوا ڈھل چکی ہے۔ الطاف گوہر کا شمار بھی دانشوروں میں ہوتا ہے لیکن اس علمیت کے بدقسمتی سے کئی منفی پہلو ہیں۔ باپ بیٹے نے بجائے خود کچھ لکھنے کے آمروں کو صاحب کتاب بنا دیا۔
In the Line of Fire ہو یا Friends not Masters یہ انہی لوگوں کا Brain Child تھا۔
5۔ ظفر صاحب کی کہانی OSD اس اعتبار سے دلچسپ ہے کہ ہرسرکاری افسر کو ایک نہ ایک دن اس ’’المیے‘‘ سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ساری کہانی کو مصطفیٰ زیدی کے اس شعر میں بیان کیا جا سکتا ہے
زبان کٹ گئی مدح ستم گراں کرتے
ضمیر بک گئے اسباب مفلساں کی طرح
لیکن ہر سرکاری افسر ایسا نہیں ہوتا، بے شمار ایسے ہیں جنہیں حکومتوں نے حق گوئی کی وجہ سے او ایس ڈی بنایا لیکن ان کا پائے استقامت متزلزل نہ ہو سکا خود ظفر صاحب نے اس عرصہ کو عطیہ خداوندی سمجھا۔ انکے اندر کا فن کار بیدار ہو گیا اور تخلیق کے چشمے پھوٹ پڑے۔
5۔ کھری عورت میں انسانی نفسیات، عقیدات اور جنسی بے راہ روی پر بحث کی گئی ہے۔ ایک عجیب قسم کا Paradox انسان کے اندر موجود ہوتا ہے ایک طرف جنسی بے راہ روی کا یہ عالم کہ شانو مذہب اور اخلاقیات کا ہر ضابطہ توڑ دیتی ہے۔ ادھر مذہبی جنون اس قدر کہ ایک غیر مسلم کو اپنے نزدیک دیکھ کر بپھر جاتی ہے اور گھر آئی ہوئی ’’نعمت‘‘ کو ٹھکرا دیتی ہے۔ ’’تم تو میرے مسلمان بھائی ہو‘‘ یہ آخری جملہ محض ایک فقرا نہیں بلکہ بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب معاشرے کو بہرحال دینا پڑیگا۔ اسی قسم کا سوال کرشن چندر نے اپنے افسانے آدم خور میں اٹھایا ہے۔ تقسیم کے وقت ایک ہندو غنڈا اپنے مسلمان حریف غنڈے کو مار دیتا ہے۔ مارنے کے بعد اسکی آتش انتقام سرد نہیں ہوتی۔ وہ کئی گھنٹوں کی کوشش سے اسکے سارے جسم کا قیمہ بنا دیتا ہیاور اسے ہاتھوں سے اٹھا کر میونسپلٹی کے گٹر میں ڈال دیتا ہے۔ تھک ہار کر وہ ایک قریبی ایرانی ریسٹورنٹ میں جاتا ہے اور کھانے کا آرڈر دیتا ہے۔ پلیٹ میں گوشت دیکھ کر وہ لال بھبھوکا ہو جاتا ہے۔ پلیٹ اٹھا کر بیرے کے منہ پر دے مارتا ہے اور غصے بھری آواز میں کہتا ہے۔ تمہیں معلوم نہیں کہ میں برہمن ہوں۔ گوشت نہیں کھاتا۔
6۔ رشوت ایک ایسی آکاس بیل ہے جو کسی معاشرے کو جب اپنے شکنجے میں جکڑ لیتی ہے تو خوشحالی کا ہرا بھرا درخت ٹنڈ منڈ ہو جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یہ ایک طرز زندگی بن چکا ہے۔’’رشوت‘‘ ایک ایسے جج کا قصہ ہے جو ایماندار ہونے کے باوصف اپنی انا کا شکار ہو جاتا ہے اور ایک ایسا گناہ بے لذت کر بیٹھتا ہے جس کا اخلاقی جواز ہو نہ ہو، قانوناً جرم کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محکمہ انٹی کرپشن کا ایک گرگ باراں دیدہ الٹا منصف کی جیب میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ ظفر محمود نے جس دلچسپ طریقے سے اس کہانی کے تانے بانے بنے ہیں۔ اسکی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
7۔ ’’دوستی کا سفر‘‘ حکمرانوں کے ان بے مقصد دوروں پر روشنی ڈالتا ہے جو آمدن، نشستند، گفتن، خوردن برخاستند سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ یہ باہمی دورے ایک دوسرے کی پشت کھرچنے کے مترادف ہوتے ہیں۔ سکول کے بچوں کے ہاتھوں میں رنگین جھنڈیاںپکڑوا کر انہیں گھنٹوں زبردستی کڑی دھوپ میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ خداوندان مکتب درس و تدریس کی بجائے کئی دن تک انہیں ریہرسل کراتے رہتے ہیں۔ کیا بولنا ہے کیسے گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے ہیں۔ پھولوں کی پتیاں کس انداز میں معزز مہمان پر نچھاور کرنی ہیں۔ اس قسم کے پرتعیش دوروں کا فائدہ عامتہ الناس کو ہو نہ ہو، حکمرانوں کو خوب پہنچتا ہے۔ واپسی پر ان کی بیگمات تحفوں سے لدی پھندی جہاز میں سوار ہوتی ہیں۔ روانگی سے قبل ائرپورٹ پر ایک پریس کانفرنس جس میں دوستانہ تعلقات کوبامِ عروج تک پہنچانے کا عزم کیا جاتا ہے۔ ہر سوال کا سکہ بند جواب جس کے کوئی بھی معانی لئے جا سکتے ہیں۔ تجربہ کار صحافی کو پہلے سے ادراک ہوتا ہے کہ کیا سوال جواب ہونے ہیں۔ مشترکہ اعلامیہ کیا ہو گا اس لئے وہ پریس کانفرنس سے پہلے ہی اخبار کے دفتر میں سٹوری فائل کر آتا ہے۔
8۔ اس محدود کالم میں ممکن نہیں ہے کہ اس دلچسپ کتاب، خیال انگیز اور خیال افروز مضامین کا بھرپور جائزہ لیا جائے۔ اب جبکہ انہوں نے سرکاری نوکری کا بارگراں اپنے کندھوں پرسے اتار دیا ہے اور انکے اندر کا تخلیق کار ایک بھرپور انگڑائی لیکر بیدار ہو چکا ہے تو امید کی جا سکتی ہے کہ ان نقش چہارم بھی پہلی تعیناتی کی طرح چونکا دینے والا ہو گا ۔زیر نظر کتاب نہ صرف افسانہ نگاری کی دنیا میں گراں قدر اضافہ ہے بلکہ ہماری سیاسی اور تہذیبی دنیا کیلئے ایک ایسی دستاویز ہے جسے نظر انداز کر کے آگے بڑھ جانا ان اصحاب کیلئے ناممکن ہو گا جو ہماری تہذیب میں صداقت و دیانت کا بول بالا دیکھنا چاہتے ہیں۔ (ختم شد)
دائروں کے درمیاں!
Apr 11, 2017