آج بوڑھا آسمان عجیب منظر دیکھ رہا ہے کہ بنگال کی مسلم قوم پرستی کے خمیر سے دوبارہ دوقومی نظریہ جنم لے رہا ہے جس کی بنیاد پر 1947میں ہندوستان تقسیم ہوا تھا۔ بنگلہ دیش کی تخلیق پر فتح کے بڑے ترانے گائے گئے تھے اور اسے دوقومی نظریے کی موت اور فلسفہ نظریہ پاکستان کی شکست فاش قرار دیا گیا تھا کہ بھارتی کالی ماتا اندراگاندھی نے بڑے فخر سے یہ اعلان کیا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریے کو ہمیشہ کیلئے خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ وہی نظریہ دوبارہ گنگا کے پانیوں سے ،بھارت بنگلہ دیش آبی تنازعات کی کوکھ سے آب وتاب کے ساتھ نیاجنم لے رہا ہے جس کے سامنے حسینہ واجد جیسی خونخوار عورت بھی بے بس و لاچار ہے ۔
بھارت اور بنگلہ دیش نے ہتھیاروں کی خریداری سمیت بائیس معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ دفاعی معاہدے کے تحت بنگلہ دیش بھارت سے 500 ملین ڈالر کا فوجی سازو سامان بھی خریدے گاجس کیلئے بھارت بنگلہ دیش کو نہایت آسان شرائط پر قرض بھی فراہم کرے گا۔بنگلادیشی فوجی قیادت نے بھارت سے ناقص ہتھیاروں کی خریداری کی شدید مخالفت کی تھی جس کی وجہ سے حسینہ واجد کا دورہ بھارت متعدد بار ملتوی کیا گیا۔ حسینہ واجد نے سات سال کے بعد بھارت کا دورہ کیا ہے۔ وہ فوجی قیادت کے شدید دبائو کا شکار رہی ہیں۔بھارتی وزیراعظم مودی کے شدید اصرار کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان آبی تنازعات حل کرنے کیلئے معاہدہ کرنے سے حسینہ واجد کو انکار کرنا پڑاکیونکہ بنگالی قوم پرست عناصر بنگلہ دیش کے حصے کی ایک بوندسے دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں،عوامی لیگ میں بھی اس حوالے سے شدید تحفظات پائے جاتے ہیں اورحسینہ واجد پر عوامی لیگ کی سینئر قیادت نے واضح کردیا ہے کہ دریائے تیستا کے پانی کی ایک بوندکو دوستی کے نام پر قربان نہیں کیاسکتاجس کے بعد حسینہ واجدنے اندرونی صورتحال اور شدید دبائو کے پیش نظر آبی تنازعات کے معاہدے کو لامتناہی مدت تک موخر کردیا ہے۔
بھارتی وزیراعظم مودی نے چارروزہ دورے کے دوران بھرپور دبائو ڈال کر معاہدے پر دستخط کرانے کی ہرممکن کوشش کی لیکن حسینہ واجد نے اپنی مجبوریاں ظاہر کرکے کوئی یک طرفہ معاہدہ کرنے سے انکار کردیا جبکہ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے یہ واضح کیا تھا کہ مودی کی مرکزی سرکار ان کی اجازت کے بغیر بنگلہ دیش کے ساتھ کسی قسم کاکوئی آبی معاہدہ نہیں کر سکتی۔ بھارت دریائے تیستا کے کے 55فیصد پانی پر دعویدار ہے جبکہ بنگلہ دیش کو 38فیصد حصہ مل رہا ہے۔ 1983 سے اس آبی تنازع کوحل کرنے کیلئے مذاکرات جاری ہیں۔ 2011میں اس سلسلے میں 15سال کیلئے ایک عبوری معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت بھارت کو 42فیصد جبکہ بنگلا دیش کو 37فیصد پانی کاحصہ مقررکیا گیا تھا۔ ممتابنر جی نے اس معاہدے کی مخالفت کی اور اس پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا ۔
بنگلہ دیش دریا کا آدھا پانی حاصل کرنا چاہتا ہے کیونکہ دسمبر سے مئی کے عرصے میں پانی کے بہائو میں شدید کمی واقع ہوجاتی ہے عام طور پر رنگپور کے علاقے میں پانی کا بحران پانچ ہزار کیوسک ہوتا ہے جوکہ دسمبر سے مئی کے دوران صرف پانچ سو کیوسک رہ جاتا ہے جس سے بھارت کے پانچ اضلاع شدید متاثرہوتے ہیں۔بھارتی زرعی ماہرین دریا کے پانی سے ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب کرنا چاہتے ہیں جوکہ بنگلہ دیش کامطالبہ منظور ہونے کی صورت ممکن نہیں ہے ۔پن بجلی کے منصوبے بھی وجہ تنازع بنے ہوئے ہیں۔ اس دریا پر پن بجلی کے 26پاور سٹیشن کام کررہے ہیں جن کی پیداواری صلاحیت 50ہزار میگاواٹ کاہدف حاصل کرنا ہے۔ بنگلا دیشی ماہرین چاہتے ہیں کہ وہ بھی اپنے علاقے میں پن بجلی کے منصوبے بنا کر لوڈشیڈنگ کو کم کرسکیں۔ بھارتی وزیراعظم مودی مئی 2017میں بنگلہ دیش کا دورہ کریں گے ۔
بنگلہ دیش اوربھارت میں گرم جوش باہمی تعلقات اور پیارمحبت کے تمام تر مظاہروں کے باوجود پانی کا تنازع حال نہیں کیاجا سکا۔دریائے تیستا بھارتی ریاست سکم سے نکلتا ہے اورریاست مغربی بنگال کے شمالی حصے کو سیراب کرتا ہوا بنگلا دیش میں داخل ہوتا ہے جہاں وہ دریائے برہم پترا میں جاگرتا ہے۔414 کلومیٹر طویل اس دریا کا273کلومیٹر بھارت میں جبکہ 140کلو میٹر حصہ بنگلہ دیش میں آتا ہے۔ بھارت اوربنگلہ دیش کی دوستی کے دھوم دھڑکے ،فیلڈ مارشل مانک شاکی یاد میں قائم کئے جانیوالے مانک شا سینٹر میں دونوں وزرائے اعظم کی پاکستان کیخلاف مشترکہ یاوہ گوئی کے باوجود گنگا اور تیستا پانی کے تنازعات جوں کے توں موجود ہیں۔ گذشتہ ہفتے بنگلہ دیشی اُمور پر گہری نظر رکھنے والے ایک دوست نے اس کالم نگار کوبتایا تھا کہ تمام تر پارلیمانی طاقت اور بھارت نوازی کے باوجود حسینہ واجد پانی کے تنازعات پر بنگلہ دیشی ماہرین کے موقف سے ایک انچ انحراف کرکے کوئی معاہدہ نہیں کرسکتیں کیونکہ انہیں علم ہے کہ اگر انہوں نے ایسی کوئی ناروا حرکت کی تو ڈھاکہ کا چپہ چپہ ان کو پناہ دینے سے انکار کردے گا اوران کیلئے مقتل بن جائے گا کیونکہ شوریدہ سر بنگالی کسی کی غلامی قبول نہیں کر سکتے چاہے وہ بھارت ہی کیوں نہ ہو۔
بنگالیوں کو اپنی دوستی اورسخاوت کے سحر میں گرفتار کرنے کیلئے کنجوس ہندوبنیے نے خزانوں کے منہ کھول دئیے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتاہے کہ بن مانگے کروڑوں نہیں اربوں ڈالر کے قرضے بنگلہ دیش پر نچھاور کیے جارہے ہیں لیکن اس سب کے باوجود پانی تنازعات کو سلجھانے کا ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا، یہ ہوتی ہے مادروطن سے محبت ،قوم پرستی ،جس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ۔ بھارتی وزیرِاعظم مودی نے بنگلہ دیش کو ہتھیاروں کی خریداری کیلئے الگ سے 50 کروڑ ڈالر قرض دینے کا بھی اعلان کیاجبکہ بھارت نے بنگلہ دیش کو مختلف ترقیاتی منصوبوں کیلئے پانچ ارب ڈالر کے فراخ دلانہ قرض کی پیش کش بھی کی ہے۔ وزیرِاعظم حسینہ واجد سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں مودی نے انکشاف کیاکہ بنگلہ دیش کو توانائی اور دیگر ترجیحی ترقیاتی منصوبوں کیلئے ساڑھے چار ارب ڈالر قرض دیاجائیگا۔ مودی کا کہنا تھا کہ بھارت بنگلہ دیش کے ساتھ روایتی شعبوں کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائبر سکیورٹی، خلائی ٹیکنالوجی، سول نیوکلیئر انرجی اور ہائی ٹیکنالوجی والے دیگر شعبوں میں بھی تعاون کا خواہاں ہے جس سے دونوں ملکوں کے نوجوان فائدہ اٹھاسکیں گے۔
اپنے دورے کے دوران حسینہ واجد نے بھارتی ہم منصب نریندر مودی کے ہمراہ بھارت کے شہر کلکتہ اور بنگلہ دیش کے شہر کھلنا کے درمیان ٹرین سروس اور کلکتہ اور ڈھاکہ کے درمیان دوستی بس سروس کا بھی افتتاح کیا۔
جہاں تک بھارتی فوجی قیادت کا تعلق ہے وہ آج بھی بنگلہ دیش کو پاکستان کے ساتھ ملا کر دیکھتے اورعمل کرتے ہیں۔ بھارتی بارڈر سکیورٹی فورسز کے ڈائریکٹر جنرل کے کے شرما کا کہنا ہے کہ آئندہ سال پاکستان اور بنگلہ دیش سے متصل سرحدوں پر کئی تہوں پر مشتمل ایک سمارٹ باڑ لگائے گا جس کیلئے 20 عالمی کمپنیاں تکنیکی جائزہ لے رہی ہیں۔ ان دو مشکل اور حساس سرحدوں پر معمول کے گشت کے نظام کی جگہ فوری حرکت میں آنے والی ٹیم کو لایا جائیگا جو کہ راڈارز کے ذریعے کسی بھی دراندازی کے بارے میں معلوم ہونے پر فوراً حملہ کریگی۔بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان قریب 4100کلو میٹر طویل سرحد ہے۔
حرف آخر یہ کہ فوجی عدالت نے بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے فوری طور پر سزائے موت کی توثیق کردی ہے ۔جس کے بعد سزائے موت پر عملدرآمد رحم کی اپیل منسوخ ہونے کے بعد ہوسکے گا۔یہیں سے اصل کھیل شروع ہوگا کہ کل بھوشن یادیو کی رحم کی اپیل کو سرد خانے میں ڈال دیا جائے جیسا کہ کشمیر سنگھ کے معاملے میں کیاگیا تھا جس کی رحم کی اپیل کامل 37برس سرد خانے میں پڑی رہی تھی اوربعدازاں جنرل پرویز مشرف کو سنہرے خواب دکھا کر اس کی رحم کی اپیل منظور کرکے سرخ گلابوں میں لاد کر پاکستان کے جھنڈے والی کار میں واہگہ سرحد پر پہنچایا گیا ۔آفرین ہے اس پر بھارتی سرزمین پر قدم رکھتے ہی اس نے بڑے فخر سے بنگلہ دیش کے قیام میں اپنے کردار کااعلان کرکے پاکستانی روشن خیالوں منہ پر زور دار تھپڑمار کر پیچھے مڑکر بھی نہیں دیکھا۔کل بھوشن کے معاملے میں یہ ڈرامہ دوبارہ نہیں دہرانا جانا چاہیے کہ آج برصغیر کی زندہ وجاوید تاریخ کی علامت جناب ممنون حسین ایوان صدر کے مکین ہیں اورہمارے دوست فاروق عادل انکے مشیر ہوتے ہیں جن کی موجودگی میں رحم کی اپیل کی منسوخی کو کسی سرد خانے میں نہیں ڈالا جاسکے گا۔