آپریشن ردالفساد کے سلسلہ میں ڈی جی خان میں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے دوران سکیورٹی اداروں نے 5 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ فائرنگ کے تبادلہ میں رینجرز کا جوان کامران افضال شہید ہو گیا جبکہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ رینجرز ہارون زخمی ہو گئے۔
رینجرز جوان کامران افضل کی ایک ماہ قبل شادی ہوئی تھی۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں وطن عزیز نے کیا کیا سپوت کھوئے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کے جوان اور جرنیل رینک کے افسر تک اور 60 ہزار سویلین اس جنگ میں آسودہ خاک ہوئے۔ اس خواہش کے ساتھ کہ انکے ہم وطن امن کی زندگی گزار سکیں۔ رد الفساد اپریشن ضرب عضب کا دوسرا مرحلہ ہے جبکہ ضرب عضب اپریشن بھی جاری ہے۔ ردالفساد کو آخری اور حتمی اپریشن بنانے کیلئے جہاں سکیورٹی ادارے کسی قربانی سے دریغ نہیں کر رہے وہیں حکومت اور قوم کو بھی مزید کمٹڈ ہونے کی ضرورت ہے۔ بلاشبہ دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں سیاسی قیادت فوج کے شانہ بشانہ ہے مگر سہولت کاروں کے حوالے سے زیرو ٹالرنس کی پالیسی کا اطلاق ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسا ہوتا تو طالبان کو اپنی اولاد کہنے اور داعش کی جانشینی کا اعلان کرنیوالے یوں آزاد نہ ہوتے۔ پنجاب حکومت نے سہولت کار کو گرفتار کر کے ثابت کیا کہ کمٹمنٹ ہو تو دہشت گردوں کے سپورٹر اور سہولت کار حراست میں آ سکتے ہیں۔ شدت پسندوں کے سرپرستوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹنے ہی سے اپریشن ردالفساد آخری اور حتمی اپریشن اور دہشت گردوں پر کاری ضرب ثابت ہو سکتا ہے۔