پاکستان میں شرح خواندگی میں اضافے کا مسئلہ کافی گنجلک ہوچکا ہے اس کا اگر ایک سر ا ہاتھ میں آتا ہے تو دوسرا گم ہوجاتا ہے ۔قیام پاکستان کے تقریباََ 23 سال تک تو کسی حکومت نے نہ اس طرف کوئی توجہ دی اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی پالیسی بنائی گئی ۔1970 میں پہلی بار اس مسئلے کی طرف توجہ دی گئی اور 50 لاکھ افراد کو آٹھ سال یعنی 1978 تک خواندہ بنانے کا ہدف مقرر کیا گیا ۔اس کے بعد جو حکومتیں آئیں انہوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے پالیساں مرتب کیں ،بجٹ مختص کئے اور نئے پراجیکٹس شروع کئے گئے جن میں اقراء پراجیکٹ،نئی روشنی سکولزاور کمیونٹی سکول وغیرہ سامنے آئے ۔یہ پراجیکٹس کچھ بہتری تولائے لیکن مسئلے کو مکمل طور پر حل نہ کر سکے ۔ گزشتہ دس سالوں میں تعلیم پر ہونے والے اخراجات پر جی ڈی پی کی شرح کے حوالے سے مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔2005میں تعلیم پر جی ڈی پی کا 1.7 فی صد خرچ ہوتا تھا جوکہ 2015-16میں 2.2 فی صد ہو گیا ۔البتہ آبادی میں اضافے کے تناسب کے ساتھ ساتھ شرح خواندگی میں اضافہ نہایت مایوس کن رہا۔آباد ی میں اضافہ کی شرح 2.4% جبکہ خواندگی میں اضافہ کی شرح 0.9% ہے۔جبکہ 2005 سے 2016میں آبادی اور خواندگی کی شرح میں فرق مزید بڑھا ہے ۔اگر ان حالات میںتعلیمی بجٹ 4 فی صد کردیا جائے تو عالمی معیار کے مطابق شرح خواندگی کا ہدف 2042 میں جبکہ 99فی صد شرح خواندگی کا ہدف 2055 میں حاصل ہو سکے گا ۔اس وقت موجودہ منظر نامہ اعدادوشمار کی روشنی میں کچھ اس طرح سے ہے کہ 2015-16 کے اعداو شمار کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 58فی صد ہے۔ لیکن اس شرح خواندگی کے گراف کا جھکاؤمردوں کی طرف زیادہ ہے ،یعنی اس خواندہ آبادی میں مردوں کی شرح 70 فی صد اور خواتین کی شرح 48 فی صد ہے ۔اس وقت سکول جانے والے بچوں کی تعداد 5 کروڑ 10 لاکھ تھی جن میں سے دوکروڑ 84 لاکھ بچے ہی سکول جا سکے تھے ۔جبکہ 2 کروڑ 26لاکھ بچے سکول جانے سے محروم تھے ۔اور ابھی تک اس تعداد میں کوئی بڑی کمی رونما نہیں ہوئی بلکہ اضافہ ہی ریکارڈ کیا گیا ہے ۔اگر ان اعدادوشمار کا تجزیہ کریں توایک دلچسپ لیکن قابل فکر حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ سکول نہ جانے والے بچوں میں بڑی تعداد کی عمر 9 سے 16 سال کے درمیان ہے ۔یہ تعداد کافی حیران کن ہے ۔کیونکہ ابھی تک خواندگی کے حوالے سے ہمارا فوکس پانچ سال کی عمر کے بچوں کو سکولوں میں داخل کروانے پر رہا ہے ۔یوں نو سے پندرہ سال کے وہ لوگ جو نوجوانی کی دہلیز پر کھڑے ہیں یا اسے پار کر کے روزمرہ زندگی میں روزگار کے حصول کے لیے کوشاں ہیں ،وہ شرح خواندگی کو بڑھانے کے حوالے سے حکومتی کاوشوں کا حصہ نہیں ہیں ۔اس صورتحال میں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ پھر کیا جائے اور کس طرح سے کیا جائے کہ ناخواندہ افراد کا یہ بڑا حصہ بھی خواندہ ہو سکے اور اس کے لیے کوئی بڑا انفراسٹریکچر بھی تیار نہ کرنا پڑے ۔اس سلسلے میں سب سے پہلا کام تو ناخواندہ افراد کی نئے سر سے درجہ بندی ہے ۔اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ناخواندہ افراد کو تین گرپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔پہلے گروپ میں وہ بچے شامل ہیں جن کی عمر 5 سے 9سال کے درمیان ہیں ۔دوسرے گروپ میں وہ افراد شامل ہیں جن کی عمر9 سے 15 سال ہے اور تیسرا گروپ ان افراد پر مشتمل ہے جس کی عمر 16 سال سے زیادہ ہے ۔پہلے گروپ کے بچوں کو اگر سکولنگ کے نیٹ ورک میں لانا ضروری ہے تو دوسرے اور تیسرے گروپ کے ا فراد پر توجہ دینے کی بھی اشدضرورت ہے ۔کیونکہ یہی وہ گروپس ہیں جوصحیح معنی میں کسی ملک کی قابل قدر افرادی قوت بن کر اس کے مستقبل کی ترقی کے معمار بن سکتے ہیں ۔اور اگر ان کی طرف توجہ نہ دی گئی تو یہی افراد ملکی معیشت پر بوجھ اس کی سا لمیت اور داخلی امن کے لیے خطرہ بھی بن سکتے ہیں ۔ناخواندہ افراد کی اس درجہ بندی کے بعد موجود تعلیمی نظام کے حوالے سے چند اہم سوالات سامنے آتے ہیں جن کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔
اول یہ کہ کیا موجودہ سکول2کروڑ 26 لاکھ آوٹ آف سکول بچوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں ۔ کیا ہمارے پاس اتنے اساتذہ موجود ہیں۔ جو ان بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا فرض ادا کرسکیں ؟کیا ہمارے مالی وسائل ان بچوں کی تعلیم کے لئے کافی ہیں؟ کیا ماضی کے تجربات اور پراجیکٹس کے نتائج اتنے حوصلہ افزاء ہیں کہ ان سے استفادہ کیا جاسکے ؟ کیا موجودہ حالات کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ اب پرائمری کے ساتھ ساتھ سکینڈری سطح کی رسمی ،غیر رسمی اور ہنر مند تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی جائے ؟ان سوالات کے جواب کے لیے ہمیں ایک مربوط اور کثیرالجہتی پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش خد مت ہیں ۔پالیسی سازی کے لیے درست اور قابل بھروسہ اعداوشمار ضروری ہیں ۔پہلے مرحلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ تحصیل کی سطح پر ناخواندہ افراد کے اعداوشمار ان کی عمر کے لحاظ سے اکٹھے کرے ۔یعنی ایک تحصیل میں جن گروپوں کا ہم نے ذکر کیا ہے اس کے مطابق کتنے افراد ناخواندہ ہیں اور انہیں کس نوعیت کی تعلیم درکار ہے ۔ دوسرے مرحلے میں ان اعدادوشمار کو علاقائی بلاکس میں تقسیم کیا جائے تاکہ صورتحال کی بہتر عکاسی ہو سکے ۔