اس وقت مودی حکومت الیکشن جیتنے کے لیے جو حربے استعمال کر رہی ہے وہ صرف بھارت کے لیے نہیں بلکہ خطہ کے تمام ممالک کے لیے انتہائی خطرناک نتائج کا حامل ہو سکتا ہے۔ ایک طرف ایسا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑ دے گا۔ ظاہر ہے یہ جنگ بین الاقوامی سرحد پر نہیں بلکہ کنٹرول لائن پر یعنی کشمیر بارڈر جو حقیقت میں سیز فائر لائن ہے پر برپا ہو گی۔ مگر پاکستان کی طرف سے بروقت انتباہ اور جوابی کارروائی کے لیے تیار رہنے کے اعلان کے بعد شاید اس کی نوبت کم ہی آئے۔ ویسے بھی عالمی برادری اور ایٹمی ممالک کے درمیان تصادم کی نوتب بہت کم آنے دے گی۔ اس کے بعد بھی بھارت خاموش نہیں رہے گا۔ وہ کشمیر میں پھر کوئی بڑا اقدام اٹھائے گا۔ اس کے لیے شاید ایک اور پلوامہ حملہ کی طرز کی سازش رچائی جائے گی یا ممبئی حملوں کی طرز کا ڈرامہ۔ اس کے جواب میں بھارت پہلے ہی تیاری مکمل کر چکا ہے۔ ایسی کسی بھی واردات کے بعد بھارت طے شدہ پروگرام کے مطابق حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دے گا۔ یوں جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ کے بعد حریت کانفرنس کی باقی جماعتوں کے خلاف بھی کریک ڈائون ہو گا اور ان کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ اگر بھارت پاکستان کیخلاف کوئی جنگی ایکشن لیتا ہے تب بھی وہ اس کے ساتھ حریت کانفرنس پر پابندی کا ہتھیار ضرور استعمال کرے گا انہیں پاکستان نواز تنظیمیں ثابت کرے۔ بھارت کی طرف سے جنگ یا بدامنی اور تحریک آزادی کی آڑ میں حریت کانفرنس پر پابندی لگانے کے مکروہ عزائم سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی حق خودارادیت کے حق میں اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کی تیاری کر چکا ہے۔ حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کی دو اہم جماعتوں، جماعت اسلامی اور لبریشن فرنٹ پر پابندی لگا کر وہ اپنے مکروہ مقاصد پہلے ہی آشکارہ کر چکا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف بھارت کشمیر کو اپنا حصہ کہتا ہے دوسری طرف وہ جماعت اسلامی جموں و کشمیر کو جماعت اسلامی ہند سے علیحدہ قرار دیتا ہے اور اس پر پابندی لگاتا ہے جبکہ پورے بھارت میں جماعت اسلامی کھل کر بطور سیاسی و مذہبی جماعت بھارتی آئین و قانون کے مطابق کام کر رہی ہے۔ اس سے واضح پتہ چلتا ہے کہ بھارت کشمیرکو علیحدہ علاقہ قرار دیتا ہے رہی بات لبریشن فرنٹ کی تو وہ خالصتاً کشمیری جماعت ہے۔ اس کا بھارت میں کوئی وجود نہیں۔ اسے اگر بھارت دشمن آزادی پسند جماعت قرار دیا جاتا ہے تو اس کی پہچان ہی یہی دو باتیں ہیں۔ وہ بھارت سے علیحدگی کی بات کرتی ہے۔ اب ایک طرف کشمیر میں الیکشن کی تیاریاں ہیں لوک سبھا یعنی پارلیمنٹ کے جو حلقے کشمیر میں ہیں وہاں الیکشن ہوں گے۔ ویسے کتنے حیرت کی بات ہے کہ بھارت پارلیمنٹ کے لیے کشمیر میں الیکشن ہو رہے ہیں مگر کشمیر کی اپنی ریاستی اسمبلی کے لیے الیکشن بدامنی کی آڑ میں ملتوی کر دئیے ہیں۔ بھارت کی کاسہ لیس تلوے چاٹنے والی سیاسی جماعتیں اس میں حصہ لینے کے لیے پرتول رہی ہیں۔ جلسے ہو رہے ہیں مگر ساتھ ہی بی جے پی کے انتخابی منشور جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر نے کا اعلان بھی شامل ہے پر سخت لے دے کر رہی ہیں مگر بھارتی حکمران جانتے ہیں کہ یہ سیاسی جماعت پہلی تنخواہ پر بھی نوکری کے لیے تیار رہتی ہیں انتخاب یہ کرنا ہے کہ اب کی بار پی ڈی پی والے ٹوپی پہنیں گے یا نیشنل کانفرنس والے۔ اس صورتحال میں کشمیری عوام کو دبانے کے لیے خوفزدہ کرنے کیلئے حریت کانفرنس کو دبائو میں لانے کی تیاری کر رہاہے۔اب کسی بھی وقت بھارت کی طرف سے کسی انہونی واقعہ کی آڑ میں حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
مگر اس پابندی کا نتیجہ جو نکلے گا وہ شاید بھارت کے لیے ایک اور درد سر بن جائے گا۔ جب وہ مذاکرات اور بات چیت کی راہ خود بند کر رہا ہے تو پھر اسے بندوق کی نوک کا سامنا تو بہرحال کرنا پڑے گا۔ اس وقت نئی نسل تیزی سے بندوق کی طرف راغب ہو ریہ ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی تحریک آزادی میں شامل ہو رہے ہیں۔ ان میں تجربہ کار اور جدید تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس نوجوان بھی شامل ہیں جو ظاہر ہے بندوق کے ساتھ ساتھ جدید ٹیکنالوجی کے ہتھیار بھی بھارت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ اب اگر حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں نے متحد ہوکر بھارت کے خلاف مسلح تحریک میں تیزی لانے کا فیصلہ کر لیا تو بھارت کس طرح اور کن لوگوں سے بات چیت کی اپیل کرے گا۔ امن کی راہ پر چلنے کا خواب دیکھے گا ۔ حریت کانفرنس پر پابندی لگا کر بھارت خود اپنی بربادی کا سامان پیدا کر رہا ہے۔ اس وقت جو آزادی پسند جماعتیں ہتھیار نہیں اٹھا رہی کل وہ بھی بندوق اٹھائے آزادی کے نعرے لگاتی میدان عمل میں پہنچ جائیں گی۔ اس لیے بی جے پی سرکار کشمیر کی آئینی خصوصی حیثیت کے خاتمے اور کشمیر میں عوام کی سب سے بڑی موثر آواز حریت کانفرنس پر پابندی لگانے کے خواب نہ دیکھے اور مذاکرات کی تمام راہیں بند نہ کرے۔ اگر ایسا کیا گیا تو پھر بھارت کو بندوق کی طاقت کا ساتھ بات کرنے والوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جن پروہ گزشتہ 30 سال سے 7 لاکھ فوجی کشمیر میں تعینات کرنے کے باوجود مکمل ناکام و نامردار نظر آ رہا ہے۔