1989ء میں شروع ہونے والی تحریکِ آزادی کی نئی لہر، گزشتہ چند برس کے دوران میں اس کی نوعیت کی تبدیلی اور اس جذبے کو دبانے کے لیے قابض غیر ملکی قوت یعنی بھارت کی طرف سے اختیار کیے جانے والے ظالمانہ ہتھ کنڈوں کے نتیجے میں جو تباہی پھیلی ، عمومی زندگی پر اس کے نہایت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ کشمیر کا شاعربھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکا،یوں مزاحمتی شاعری پیدا ہوئی ۔شاعری کی یہ صورت مقامی روایت سے بے گانہ نظر آتی ہے ۔ رنج و الم یہ کیفیات تہذیبی اعتبار سے اِس خطرے کی نشان دہی کرتی ہیںکہ کہیں یہ صورت حال کشمیر کے اُس روایتی رنگ ہی کو گوشۂ گم نامی میں نہ دھکیل دے جو کبھی اس کا طرۂ امتیاز ہوا کرتا تھا۔انسانی حقوق کی انجمنیں تسلیم کرتی ہیں کہ بھارت کی سیکیورٹی فورسز کی طرف سے حریت پسندوںکے خلاف عوامی املاک کو تباہ کرنے کا مقصد آبادی کو اجتماعی سزا دینا ہے۔یہ صورت حال شاعری پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ مدہوش بالہامی کا ایک شعر ہے … ؎
ایسی بات نہیں ہے کہ قد اپنے گھٹ گئے
چادر کو اپنی دیکھ کر ہم ہی سمٹ گئے
برطانیہ کا وکٹوریہ البرٹ میوزیم اپنے حیران کن عجائبات کیلئے معروف ہے۔یہاں کشمیری مصوری کے جو نمونے محفوظ ہیں،وہ اس صنف لطیف کے ایک منفرد اسلوب کے نمائندہ ہیں۔یہ 16؍ صدی عیسوی کے وسط کی بات ہوگی جب کشمیر میں مصوری کے ایک نئے مکتبۂ فکر کی بنیاد پڑی۔ اس عہد کے مصور؛مصور سے کچھ بڑھ کر ہی تھے،یوں کہہ لیجئے کہ جادوگر رہے ہونگے۔ انہوں نے سوت کے کپڑے پر مصوری کے تجربات کیے۔کہنے کو یہ مصوری تھی مگر مؤرخ کی آنکھ سے دیکھئے تو تاریخ تھی، ادیب کی آنکھ سے دیکھئے تو ادب۔ یہ مصور اپنے مو قلم سے رنگوں کی ایسی جوت جگاتے کہ بہار کیا جگاتی ہوگی۔ان مصوروں نے کشمیری لوک کہانیاں مصور کیں، جنگوں کے مناظر کی منظر کشی کی، باغات اور محلات نِک سُک سے ایسے درست بنائے کہ نقل پر اصل کا گماں گزرے۔ اس میوزیم میںمحفوظ کشمیری مصوروں کی یہ جادوگری آج بھی نگاہوں کو خیرہ کرتی ہے۔ مصوری کی ایسی زندہ جاوید روایت رکھنے والایہ خطہ جب سے آزمائش سے دو چار ہوا ہے، اسکی مصوری کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا ہے۔
حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کے بچوں کی مصوری کے بارے میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایاگیا ہے کہ ان بچوں نے جو تصاویر بنائی ہیں، ان میں تشدد، سڑکوں پر بکھرے پتھر اور جلتے ہوئے گھردکھائی دیتے ہیں۔ مستقبل کے بارے میں جو ڈر ان بچوں کے ذہن میں بیٹھ گیاہے، وہ سب ان تصویروں میں دکھائی دیتا ہے۔
بچوں کی طرح تجربہ کار اور معروف مصور بھی ڈپریشن میں ہیں۔کشمیری آرٹ کا اپنا مزاج اور اسکے جغرافیے کی مناسبت سے اپنے رنگ تھے لیکن آج کشمیر کا مصور مایوسی کے عالم میں ہے۔شوخ و شنگ رنگوں کا استعمال ماضی کا قصہ ہوا۔ نامور مصور مسعود حسین کہتے ہیں ،یہ اس لیے ہے کہ ایک سچا مصور وہی کچھ پینٹ کرسکتا ہے جو اسے اپنے اطراف میں دکھائی دیتا ہے، لہٰذا آج کا مصور سیاہی مائل رنگوں سے تصویریں بناتا ہے جو غم اور تباہی کو اجاگر کرتا ہے۔
پرندوں کی چہکارسن کر بیدار اور ندی نالوں کی جل ترنگ میں دن اور رات گزارنے والے اہل کشمیر کا موسیقی کے ساتھ تعلق فطری ہے۔ مؤرخین مضبوط حوالوں کے ساتھ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کرۂ ارض پر یہی وہ پہلی سرزمین ہے، جہاں دنیا کا پہلا اوپر ا تخلیق ہوا اور اس کی موسیقی پہلی بار ایک مربوط نظام کے تحت ترتیب دی گئی ۔کشمیر میں ساز و آواز کی یہ روایت ہمیشہ توانا رہی جسے ہند اسلامی تہذیب نے فراخ دلی سے پروان چڑھایا، لہٰذا اس خطے نے اپنے راگ اور راگنیاں ہی تخلیق نہیں کیں بلکہ یہاں کے لوگوں نے اپنے آلات موسیقی بھی ایجاد کیے جن میںگِچک (Gichak)اور صد تارا خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ان سب تخلیقی کاوشوں کے نتیجے میں موسیقی کی وہ شکل ابھری جس کا انتہائی گہرا تعلق صوفی روایت سے ہے۔ اہل کشمیر کے اس وصف کی آئین اکبری میں بھی دل کھول کر داد دی گئی۔جواں سال گلو کار علی سیف الدین اعتراف کرتے ہیں کہ کشمیر کی اصل موسیقی تو وہی ہے جس نے صدیوں کی گود میں پرورش پائی لیکن اسکے ساتھ ہی وہ یہ کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ اب وہ اس روایت پر قائم نہیں رہ سکتے۔وہ کہتے ہیں کہ اگر میں ایک لڑکے کو گولی لگتے ہوئے دیکھوں یا اپنے کسی پیارے کے لا پتہ ہونے کی خبر سنوں تو میرے گانے میں بھی یہی چیخ و پکار سنائی دے گی۔تو آج اہلِ کشمیر کی تہذیب ،معاشرت، ادب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ کی بھری پُری روایت اُس مقام پر آٹھہری ہے جس کے بعدجو لے اُٹھے گی ،رنج و الم میں ڈوب کر اُٹھے گی جو نالہ بلندہو گا ، فریاد کنا ں ہوگا۔کاش! احترام آدمیت اور تہذیب انسانی کواس کی بہترین شکل میں برقرار رکھنے کے خوش کن دعوے کرنے والی دنیا تک اہل کشمیر کی یہ آوازبھی پہنچ سکے۔(او آئی سی کے ذیلی ادارے ریسرچ سنٹر فار اسلامک ہسٹری، آرٹ اینڈکلچر ، نیشنل ہسٹری انیڈ لٹریری ہیریٹج ڈویژن حکومت پاکستان اور حکومت آزاد کشمیر کے زیر اہتمام کشمیر کے اسلامی تاریخ، ثقافت اور ورثے کے موضوع پر بین الاقوامی کانگریس منعقدہ اسلام آباد میں پڑھا گیا)۔