نئی دہلی کے وسیع و عریض سبزہ زاروں پر نیازمانہ طلوع ہورہا ہے۔ بھارت کا قدیم سیاسی منظربدل رہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ مودی بدلتے مناظر کامقابلہ کرپائیں گے یانہیں، وہ نفرت کے الاو بھڑکاکرسیاسی کھیل جیتنے کی تگ ودو کررہے ہیں جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ مقامی سطح پر انہوں نے چن چن کر اپنی راہ کے تمام پتھروں کو ہٹایاہے۔ عوامی مقبولیت کے تخمینوں اور اندازوں میں وہ نوجوان اور ناتجربہ کار راہول گاندھی سے کوسوں میل آگے ہیں۔ خوبرو پریانیکا کا جادو بھی صحیح معنوں میں نہیں چل سکا۔ رہے نفرتوں کے سوداگر مودی تو وہ اب جنگ اور امن کے درمیان معلق ہیںجبکہ ہمارے وزیراعظم عمران خان ایسے امید پرست ہیں کہ کبھی مایوس نہیں ہوتے، کبھی آس امید کا روشن چراغ بجھنے نہیں دیتے۔فرماتے ہیں۔’ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر ‘‘واحد’’ حل طلب مسئلہ ہے اگر مودی دوبارہ جیت گئے تو جنوبی ایشیا میں امن کے امکانات روشن ہو جائیں گے ،یہ کانگریس کے مقابل زیادہ بہتر اقدامات کرسکتے ہیں ۔
بھارتی انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں ،گجراتی قصائی کے بھائی مودی کوکی کا جنگ جنوں اور نفرت کا کھیل عروج پر پہنچ چکا ہے۔ آخری انتخابی تقریر میں اس نے ووٹروں سے اپیل کہ وہ اپنا اپنا ووٹ بھارتی ائیر فورس سے منسوب کریں جس نے پاکستانی بالا کوٹ میں مبینہ حملہ کرکے 6 چیڑ کے درخت نشانہ بنائے اور ایک کوا مارا’ جبکہ پاکستانی ایف 16 گرانے کی طوطا کہانی کوکی ، قصائی کے چچا امریکہ بہادرانکل سام نے بے نقاب کردی ہے۔ انتخاب جیتنے کیلئے روٹی، روزگار اور رہائش کے گزشتہ انتخاب کے وعدوں میں بْری طرح ناکام مودی پاکستان کیخلاف جنگ وجدل کی آگ بھڑکا کر اپنی عوامی پذیرائی بڑھارہا ہے ۔ عوامی مقبولیت 63 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ بھارت میں پاکستان مخالف ’پتّا‘ پھینکنا نئی بات نہیں۔ یہ سلسلہ آنجہانی اندرا گاندھی کے دور سے چلاآرہا ہے۔ بھارت میں عوام کو الجھا کر، گمراہ کرکے اور اشتعال دلا کر انتخاب جیتنا آسان ہے۔ یہاں تو وہ کامیاب ہے جو زخم لگائے، جو قتل وغارت گری کا ماہر ہو، جو ظلم میں چنگیز خان اور ہلاکو خان جیسے سفاکوں کو بھی پیچھے چھوڑ جائے، جو عوام کو جتنی بڑی گمراہی میں مبتلا کرنے کا ہنر رکھتا ہو، وہی کامیاب و کامران ٹھہرتا ہے۔ بھارت میں عوامی نفسیات سے کھیلا جاتا ہے جس میں ان کو عدم تحفظ اور غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایا جاتا ہے۔ برصغیر میں مسلمانوں کی طویل بادشاہت اور اقتدار کے باوجود ایک ہندو کش فساد نہ ہوا اگر مسلمان بادشاہ اس وقت بی جے پی والی حکمت عملی چلاتے تو آج یقیناً ایک بھی ہندو ہندوستان میں موجود نہ ہوتا۔
اندرونی محاذ مودی نے اپنی راہ کے پتھر چن چن کر ہٹا دئیے ہیں بھارتی سیاسی منظرنامے سے بہت سے بادشاہ گر غائب ہوچکے ہیں وہ جن کا 2014 میں طوطی بولتا تھا اب کہیں دکھائی نہیں دیتے ان میں ایسے مہمان سیاستدان بھی شامل ہیں جنکے آبروئے چشم پرتقدیربدل جایاکرتی تھی ۔صرف 5 سال میں ان پر جان نچھاور کرنیوالے کارکن بھی انہیں بھلا چکے ہیں یہ ہے اندرونی سیاسی محاذ پر شاطر مودی کی کامیابیوں کی داستان’ جس میں گورنر کے عہدے کو بے دریغ استعمال کیاگیاہے۔ صرف اترپردیش میں تین آسمان چھوتی عوامی مقبولیت کے حامل رہنماؤں کو ’’گورنری‘‘ کے پھندے پر چڑھا دیا گیا۔ یوپی میں بی جے پی کی فتح میں بنیادی کردارادا کرنے والے پس ماندہ طبقات کے غیرمتنازعہ رہنما کلیان سنگھ شہرت کی بلندیوں پر تھے انکی رہائش گاہ پر ہر وقت رہنمائوں اور کارکنوں کا ہجوم ہوتا تھا انکی سفارش پر ٹکٹ جاری ہوتے تھے۔مودی نے وزیراعظم بنتے ہی ان کو راجستھان کا گورنر بنا کر دیس نکالا دے دیا اوراب ان کا گھر اجڑے دیارکامنتظر پیش کرتاہے۔لکھنؤکے دیوتا سمان رکن لوک سبھا لال جی ٹنڈن کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی "سلوک" کیاگیا ان کاگھر بی جے پی کے کارکنوں کیلئے مندر جیسا پوتراستھان تھا انکی دل موہ لینے والی مسکراہٹ کاچرچاتوسارے ہندوستان میں تھا انہیں گذشتہ برس گورنر بہار بنا کر جان چھڑائی گئی انکا گھر بھی اب بیاباںبنا ہوا ہے۔اترپردیش سے لوک سبھا کے سابق رکن ترپا تھی کو مغربی بنگال کاگورنر بنا کر جوگی ادیاناتھ کیلئے میدان صاف کیا گیا۔ولی منوھر جوشی اورائومابھارتی کومودی نے ٹکٹ دینے سے ہی صاف انکارکردیا اوروہ سیاسی منظرسے غائب ہوگئے۔ایک اورہندوانتہا پسند، آتشیں لہجے والا وینائے کٹیار کو بھی انتخابی مہم کے دوران بڑی مہارت سے لاپتہ کردیا گیا۔ سب سے بڑالمیہ تو علاقائی جماعت سماج وادی پارٹی کے بانی ملائم سنگھ یادیو کے ساتھ ہوا جنہیں حوادث زمانہ نے انکے حلقہ انتخاب تک محدود کردیا جہاں وہ جیتنے کیلئے سرتوڑکوششیں کررہے ہیں، اسی طرح بہوجن سماج وادی رہنما سوامی پرساد موریا اور نسیم الدین صدیقی بھی ڈھونڈے نہیں ملتے۔سماج وادی سابق رہنما امرسنگھ بیماری کے باعث ہسپتال میں ہیں لیکن دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر خوبرواداکارہ جیاپرادا کی انتخابی مہم بسترمرگ سے سوشل میڈیا پر چلائے جارہے ہیں۔ (جاری)