مودی کے دوبارہ الیکشن جیتنے کی صورت میں وزیراعظم عمران کی کشمیر پر مذاکرات کی راہ ہموار ہونے کی خوش فہمی
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اگر بھارت کے انتخابات موجودہ وزیراعظم نریندر مودی دوبارہ جیت گئے تو بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کیلئے ایک بہتر موقع بن جائیگا اور کشمیر پر پیش رفت ممکن ہو سکے گی۔ گزشتہ روز غیرملکی صحافیوں کو انٹرویو اور اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں عمران خان نے کہا کہ اگر بھارتی انتخابات میں کانگرس آئی کو کامیابی حاصل ہوئی تو پھر بھارت کیلئے کشمیر پر پیش رفت مشکل ہو جائیگی جبکہ بی جے پی کی کامیابی کی صورت میں کشمیر پر کسی سمجھوتے پر پہنچا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں مسلمان ہونا ایک پریشانی کی بات ہے کیونکہ وہاں مسلمانوں پر حملے ہوتے ہیں۔ انکے بقول بھارت میں مودی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی طرح خون اور قوم پرستی کے احساس کو اجاگر کرکے انتخابات کرارہے ہیں۔ اس طرح وہ ڈرا کر اور قوم پرست جذبات ابھار کر الیکشن جیتنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ کشمیر ایک سیاسی جدوجہد ہے جس کا کوئی فوجی حل نہیں۔ پاکستان کیلئے یہ بات بہت اہم ہے کہ وہ افغانستان اور ایران کے ساتھ امن قائم رکھے تاکہ دس کروڑ لوگوں کو مفلسی سے نکالا جاسکے۔ انکے بقول بھارت اور اسرائیل کے حکمران اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور ووٹ لینے کیلئے دونوں ممالک کی قیادتیں اپنے عوام کو گمراہ کررہی ہیں۔ اپنے ٹویٹر پیغام میں وزیراعظم عمران خان نے بھارت اور اسرائیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بھارت اور اسرائیل کے حکمران اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں اور ان دونوں ممالک کی قیادتیں ووٹ لینے کی خاطر کسی بھی حد تک جاسکتی ہیں۔ اسرائیل مغربی کنارے اور بھارت مقبوضہ کشمیر پر جبری قابض ہے۔ یہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی قراردادوں کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں اور عالمی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بی جے پی اور کانگرس آئی سمیت پاکستان دشمنی ہندوئوں کی نمائندہ تمام بھارتی جماعتوں اور انکے لیڈران میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اس لئے کسی ہندو نواز بھارتی جماعت سے پاکستان کیلئے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تقسیم ہند کے مراحل میں بھارتی کانگرسی لیڈران برطانوی وائسرائے ہند لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ اسی حوالے سے سازشوں میں مصروف رہے کہ تشکیل پاکستان کی نوبت نہ آنے دی جائے کیونکہ تشکیل پاکستان سے انکے مہابھارت کے خواب چکناچور ہوتے تھے۔ تاہم جب انہیں یقین ہوگیا کہ قائداعظم محمدعلی جناح کی قیادت میں شروع ہونیوالی تحریک پاکستان کو وہ کامیابی سے ہمکنار ہونے سے نہیں روک پائیں گے تو انہوں نے تقسیم ہند کے فارمولے میں زور زبردستی کرکے ردوبدل کرایا اور سازش کی کہ پاکستان کی بنیاد ہی کمزور رکھوا دی جائے تاکہ اس پر شب خون مارنے میں آسانی ہوسکے۔ اسی سازش کے تحت امرتسر کو پاکستان کے حصے میں آنیوالے پنجاب سے کاٹ دیا گیا اور اسی طرح وسائل کی تقسیم میں بھی ڈنڈی ماری گئی جبکہ خودمختار ریاست کشمیر کا بھی پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دیا گیا جسے مسلم اکثریتی آبادی کے ناطے پاکستان ہی میں شامل ہونا تھا اور کشمیری عوام نے خود بھی تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ کانگرسی لیڈروں نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے دینے کی سازش پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کمزور کرنے کی نیت سے ہی کی جن کا سازشی ذہن اپنے تئیں یہ نتیجہ اخذ کئے بیٹھا تھا کہ وہ کشمیر کے راستے پاکستان جانیوالے دریائوں کا پانی کسی بھی وقت روک کر اسے ریگستان میں تبدیل کرسکتے ہیں جسکے بعد بھوکے پیاسے مرتے پاکستان کے پاس واپس بھارت کی گود میں آنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں رہے گا۔ اسی تناظر میں جواہر لال نہرو نے بھارتی وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد کشمیر کا تنازعہ کھڑا کیا۔ وہاں بھارتی فوج داخل کرکے اسکے غالب حصے پر اپنا تسلط جمالیا اور پھر اپنے ہی پیدا کردہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ جا پہنچے تاہم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کرکے بھارتی حکمرانوں کو رائے شماری کے اہتمام کی ہدایت کی تو ہندو بنیاء لیڈر شپ اقوام عالم کے اس نمائندہ ادارے کی قراردادوں سے ہی منحرف ہو گئی اور اپنے آئین میں ترمیم کرکے مقبوضہ کشمیر کو باقاعدہ اپنی ریاست کا درجہ دے دیا۔
بھارت کی اسی جماعت کانگرس نے اپنے دور اقتدار میں پاکستان پر 48ئ‘ 65ء اور 71ء کی تین جنگیں مسلط کیں اور اسے سانحۂ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے کا کریڈٹ لیا جس کے بعد کانگرسی وزیراعظم اندراگاندھی نے بڑ ماری کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ اسکے بعد حکمران کانگرس باقیماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہو گئی اور 1974ء میں پہلا ایٹمی دھماکہ کرکے پاکستان کی سلامتی کیلئے سنگین خطرات پیدا کر دیئے۔ جب کانگرس کی مدمقابل بی جے پی کو اقتدار میں آنے کا موقع ملا تو اسکے وزیراعظم واجپائی نے پورے بھارت میں پاکستان اور مسلم دشمنی کی آگ بھڑکادی‘ مسلم کش فسادات کی سرپرستی کی‘ بابری مسجد کو شہید کراکے بھارت کے عملی طور پر ہندو ریاست ہونے کا دنیا کو پیغام دیا اور کشمیر پر کسی بھی فورم پر اور کسی بھی سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کی راہیں مسدود کردیں جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تسلط سے آزادی کی تڑپ رکھنے والے کشمیری عوام کا عملاً جینا دوبھر کردیا۔ اسی بی جے پی کے کارکن موجودہ وزیراعظم نریندر مودی اپنی نوعمری میں ہی پاکستان دشمنی میں اس انتہاء کو پہنچ چکے تھے کہ انہوں نے 71ء کی جنگ کے دوران بھارتی سرپرستی میں قائم کی گئی عسکری تنظیم مکتی باہنی کی پاکستان توڑو تحریک میں عملاً حصہ لیا جس کا وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد بنگلہ دیش جا کر فخریہ اعتراف کرنا بھی انہوں نے ضروری سمجھا۔
پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا اور کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کو بزور دبانا بھارتی کانگرس اور بی جے پی دونوں کا مشترکہ ایجنڈا رہا ہے جسے ان دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں حکومتی پالیسیوں کا حصہ بنایا اور اسی بنیاد پر کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ وسیع کیا اور پاکستان پر دراندازی کے الزامات لگاتے ہوئے اسے کشمیریوں کی حمایت سے دستکش ہونے پر مجبور کرنے کی کوششیں کیں۔ بے شک واجپائی نے پاکستان کے جوابی ایٹمی دھماکوں کے بعد دوستی بس پر سوار ہو کر اور واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان آکر پاکستان کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کا عندیہ دیا مگر واپس جا کر اپنے مقبوضہ سیاچین گلیشیئر پر پاک فوج کی اس علاقے کا قبضہ بھارت سے چھڑانے کیلئے کی گئی کارروائی کو جواز بنا کر پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی اس انتہاء کو پہنچا دی کہ لاہور میں کئے گئے دوستی کے عہد و پیمان ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ہندو انتہاء پسند لیڈروں کی نمائندہ بی جے پی نے اپنے دور حکومت میں پاکستان دشمنی کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جبکہ انکے پیدا کردہ پاکستان دشمنی کے ماحول کو کانگرس آئی نے دوبارہ برسراقتدار آکر خوب گرمایا اور ناشتہ امرتسر‘ لنچ لاہور اور ڈنر پشاور میں کرنے کی خواہش رکھنے والے کانگرسی بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ نے ممبئی حملوں کا سارا ملبہ پاکستان پر ڈالتے ہوئے پاکستان بھارت کسی بھی سطح کے مذاکرات کے دروازے رعونت کے ساتھ بند کرنے کا اعلان کردیا اور اسکے ساتھ ہی وہ پاکستان کو ’’کشمیر کو بھول جائو‘‘ کا درس دیتے بھی نظر آئے۔ منموہن سنگھ کے دونوں ادوار اقتدار میں پاکستان بھارت مذاکرات کی کسی بھی فورم پر نوبت نہیں آسکی۔ انہوں نے نیپال کے شہر تھمپو میں ہونیوالی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی کا ضرور اظہار کیا مگر بھارت واپس جاتے ہی پاکستان دشمنی کی آگ بھڑکانا انہوں نے اپنی پارٹی اور حکومتی پالیسی کا حصہ بنالیا۔ انہی کے دور میں گجرات میں نریندر مودی کی سرپرستی میں مسلم کش فسادات کی انتہاء ہوئی اور سمجھوتہ ایکسپریس کی پاکستانی مسافروں والی پوری بوگی کو جنونی ہندوئوں نے پٹرول چھڑک کر خاکستر کردیا۔
گزشتہ بھارتی انتخابات میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے پہلے ہی دن وزیراعظم پاکستان نوازشریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کرکے ان پر الزامات کی بوچھاڑ کی اور اس طرح پاکستان دشمنی کو فروغ دینے کا واضح عندیہ دے دیا۔ انہوں نے اپنے پورے دور اقتدار میں پاکستان دشمنی کی بھڑکائی گئی آگ سرد نہیں ہونے دی۔ کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ جھڑپوں اور سرحدی کشیدگی کا سلسلہ بھی اپنا معمول بنایا اور مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوجوں کو مظالم کے نئے ہتھکنڈوں کی راہ پر لگادیا۔ ان کا عرصۂ اقتدار بھارت میں ہونیوالی ہر دہشت گردی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی جھوٹی داستانوں سے بھرا پڑا ہے جبکہ انہوں نے اپنے دور اقتدار میں علاقائی نمائندہ سارک تنظیم کو سبوتاژ کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پاکستان میں شیڈول سارک سربراہ کانفرنس کے انعقاد کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ اسی طرح جنرل اسمبلی کے ہر سالانہ اجلاس کے موقع پر مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے دی بلکہ مذاکرات کیلئے پاکستان کی ہر کوشش کو مختلف الزامات عائد کرکے ناکام بنایا جاتا رہا۔
عمران خان نے وزیراعظم پاکستان منتخب ہونے کے بعد بے شک نیک نیتی اور خیرسگالی کے جذبے کے تحت مودی کے مبارکبادی پیغام کے جواب میں انہیں کشمیر اور دیگر دوطرفہ تنازعات مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر سلجھانے کی پیشکش کی جو بھارت نے اپنی منافقانہ حکمت عملی کے تحت منظور بھی کی اور جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر پاکستان بھارت وزراء خارجہ کی باضابطہ ملاقات کا شیڈول بھی طے کرلیا مگر عین موقع پر مودی سرکار نے پاکستان کے ساتھ کشیدگی انتہاء کو پہنچا دی۔ ایسا ہی طرزعمل مودی سرکار نے کرتارپور راہداری اور پانی کے تنازعہ کے حوالے سے بھی اختیار کیا اور مذاکرات کیلئے آمادہ ہونے کے باوجود مذاکرات کی بساط خود ہی الٹاتی رہی جبکہ پلوامہ خودکش حملہ کے بعد تو مودی سرکار نے عملاً باولے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان بھارت جنگ کی فضا ہموار کردی جس کے ایٹمی جنگ بننے کی صورت میں علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بھی سنگین خطرات پیدا ہوئے۔ وزیراعظم عمران خان مودی سرکار کے اس رویے کے باوجود ایک مدبر قائد کی حیثیت سے بھارت پر مذاکرات کی راہ اختیار کرنے پر ہی زور دیتے رہے جس کا جواب بھارتی جہازوں کی فضائی دراندازی کی صورت میں دیا گیا تو پاکستان کو بھی اپنی سلامتی کے تقاضوں کے تحت بھارت کو مسکت جواب اسکے دو طیارے گرا کر دینا پڑا۔
مودی تو یہ سارا کھیل پاکستان دشمنی کے جذبات بھڑکاکر آج 11؍ اپریل سے شروع ہونیوالے لوک سبھا کے انتخابات میں ہندوئوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے رچا رہے ہیں اس لئے انتخابات میں کامیابی کی صورت میں ان سے پاکستان کیلئے ریشہ خطمی اور کشمیر پر مذاکرات کیلئے آمادہ ہونے کی بھلا کیسے توقع کی جا سکتی ہے جبکہ پاکستان دشمنی کے ایجنڈے پر انتخاب جیت کر تو وہ بدمست ہاتھی کا روپ اختیار کرلیں گے۔
خطے کے امن کیلئے وزیراعظم عمران خان کی مودی کے ساتھ وابستہ کی گئی توقعات اپنی جگہ مگر موذی سانپ سے ڈنک مارنے سے باز رہنے کی توقع ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہیے کہ بھارتی انتخابات میں کون کامیاب ہوتا ہے کیونکہ پاکستان دشمنی تو ہر بھارتی جماعت کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ہمیں تو اپنے دفاع کے تقاضے نبھانے اور اپنے بہترین مفادات کی پاسداری کرنی ہے جبکہ مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی صورت میں ہمارے ملکی اور قومی سلامتی کے چیلنجز مزید بڑھ جائینگے۔ اس تناظر میں مودی کے ساتھ کسی قسم کی نیک توقعات وابستہ کرنے اور اس کا اظہار کرنے کے بجائے اپنے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کی جانب توجہ دی جائے کیونکہ مودی کے دوبارہ برسراقتدار آنے سے پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی باقاعدہ جنگ کی نوبت بھی لاسکتی ہے جس کا وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پہلے ہی بعض ٹھوس شواہد کی بنیاد پر عندیہ دے چکے ہیں۔