پچھتاوا

Apr 11, 2020

فضل حسین اعوان....شفق

’’موت سے زندگی کی طرف‘‘ کتاب میں ایسے لوگوں کے انٹرویوز شامل ہیں جو بیماری، حادثے یا کسی بھی وجہ سے موت کی دہلیز سے لوٹے۔جس سے ملاقات ، فون پر بات یا جو بھی ملا اس سے اس موضوع پر بات کرنے کی کوشش کی۔دفتر کے بزرگ آفس بوائے سے پوچھا آپ کو کبھی موت نظر آئی۔ ان کا برجستہ جواب تھا۔ ’’جب آپ مجھے کوئی کام کہتے ہیں تو مجھے موت ہی نظر آتی ہے۔ ایک مرتبہ ان سے رس ملائی منگوائی تو وہ ایک ہاتھ میں رس دوسرے میں ملائی لے آئے۔ میجر نذیرنے دو حیران کن واقعات بتائے۔ وہ گھر سے باہر گئے تو ڈاکو دروازہ کھلوا کر اندرجانے لگے۔ ملازم لڑکے نے مزاحمت کی تو تشدد کرنے لگے ۔ اسی دوران بیگم صاحبہ آ گئیں اور ایک ڈاکو پر جھپٹ پڑیں ۔ انکی بھتیجیاں امتحان دینے آئی ہوئی تھیں۔ ایک تو بیڈ کے نیچے چھپ گئی دوسری نے آرلنگٹن پسٹل اٹھایااور اہلیہ سے گُتھم گُتھا ڈاکو کی پسلی پر رکھ کر6 فائر کر دئیے۔ایک فائرملازم سے دست وگریباں ڈاکو پر کیاجو اسکے بازو میں لگا، اسی دوران میجر صاحب بھی لوٹ آئے۔ زخمی ڈاکو سے دروازے پر سامنا ہوا للکارنے پر پسٹل لہراتے ہوئے انکی جانب لپکا‘ لگتا تھا فائر کھول دیگا۔ اس لمحے ان کو موت سامنے نظر آئی۔ دوسرا واقعہ زیادہ ہولناک اور خوف سے رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔بطور لفٹین انکی لاہور سے گلگت ٹرانسفر ہوئی رختِ سفرباندھ کر راولپنڈی چلے گئے۔ یہ 1968ء جولائی کا مہینہ ہے۔ گلگت تک سڑک کا وجود بھی نہیں تھا۔ پی آئی اے کے فوکرکے ذریعے ہی گلگت جایاجاتا تھا۔ نذیر صاحب اگلے روزائیرپورٹ جا پہنچے۔ پتہ چلا کہ موسم خراب ہے۔ فوکر نہیں جا سکتا۔تیسرے روز بھی موسم خراب رہا۔ مسافروں میں زیر تعمیر شاہراہِ ریشم کا جائزہ لینے کیلئے آیاچینی وفد بھی شامل تھا۔مسافر پندرہ دن آکر لوٹتے رہے۔نذیر فاروق کہتے ہیں، اس دوران پیسے ختم ہو گئے۔ فوجی میس میں قرض بڑھتا جا رہا تھا۔ فارغ بیٹھنا فطرت میں نہیں تھا۔ دل کرتا تھا کہ اڑ کر ڈیوٹی کی جگہ پہنچ جائوں۔کسی نے ہر موسم میں پرواز کرنیوالے سی 130 کے ذریعے گلگت جانے مشورہ دیا۔اگلے روز فضائیہ کے جہاز کا گلگت جانے کا شیڈول تھا۔ میںائیر بیس سے رابطہ کر کے وردی میں وہاں جا پہنچا۔ اس دن جہاز میں ایف ڈبلیو او کے فوجی گلگت جا رہے تھے۔مجھے بھی سیٹ مل گئی۔ 15 دن جس طرح کاٹے وہ عذاب تھے۔ جہاز ٹیکسی کرتے ٹارمک سے رن وے کیطرف رینگنے لگا۔ سیٹ ملنا اس وقت میری زندگی کی سب سے بڑی خوشی تھی۔معاً جہازرُکا، گیٹ کھلا اور فضائیہ کے دو افسر داخل ہوئے۔جوگلگت میں موجود ہیلی کاپٹر کے پائلٹ تھے۔ عملے نے مجھے اور میرے جیسے مسافر کو اترنے کو کہا۔ بپتا سنانے کی کوشش کی مگر بے سود، ہمیں باہر کا راستہ دکھادیاگیا۔ افسوس سا کوئی افسوس ہوا !۔۔۔
یہ وہ دور تھا جب ایوب خان کیخلاف مظاہرے ہو رہے تھے۔واپسی پر مظاہرین نے گھیر لیا ۔کہنے لگے ’’ایوب کتا‘‘کے نعرے لگاؤ۔میں نے انکار کردیااور بالآخر مجھے جانے دیا۔ چینیوں کو مظاہروں کی نوعیت کا پتہ چلا تو وہ بڑے افسردہ ہوئے۔ وہ اسے پاکستان کی بدقسمتی سے تعبیر کرتے تھے۔ مجھے کہنے لگے۔" ایوب خان مائوزے تُنگ کے لیول کا لیڈر ہے۔ لوگ ایوب خان کو نکال کر روئیں گے، پچھتائیں مگر ایوب انکو نہیں ملے گا۔ ان کی ایک ایک بات درست ثابت ہوئی۔
آج عمران خان سے نجات کیلئے بھی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ کچھ کیلئے عمران خان کا نام تک ناقابل برداشت ہے۔ اول تو عمران کو سرِدست نکالنا ناممکن ہے ۔بالفرض انکے خلاف کوششیں ، کاوشیں یا سازشیں کامیاب ہو جاتی ہیں تو کئی کو پچھتانا پڑیگا۔ عمران خان کوئی "Legend"دیدہ ور اور جینئس نہیں۔ پاکستان کو ایسے حکمران کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ ان میں کئی خامیاں ہونگی مگر تیس 32 سال کے حکمرانوں کیــ"کمالات" پر عمران کی دیانت داری حاوی ہے۔ کرونا کی تباہ کاریوںکے دوران بھی مخالفین حکومت الٹائو مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فوج اور حکومت کے اختلافات کی افواہیں اڑائی جاتی ہیں۔ جن میں کوئی صداقت نہیں مگر رائے عامہ کا ایک حصہ گمراہ ضرور ہو رہا ہے۔
بالفرض آج ہی کسی وجہ سے انتخابات ہو جاتے ہیں "کرونا گردی" میں جن کا دور دور تک امکان نہیںفرض کرلیں الیکشن ہوتے ہیں۔ اول تو پی پی پی اورن لیگ انتخابی اتحاد پر متفق نہیں ہوسکتیں۔ایک اور فرض کرکے دیکھ لیں ۔آج کی اپوزیشن یکجہت،یکجان اور یک قالب ہوجاتی ہے تو بھی شکست نہیں دے سکے گی۔غیر جانبدار حلقوں میں اس طرح کی نفرت و بے چینی نہیں ہے جو ماضی میں حکمرانوں کیلئے نظر آیا کرتی تھی۔ لیگی قیادت کی ٹی ٹیز سے اکثر لیگی انکاری جبکہ کئی نے قبول بھی کیا ہے۔ ن لیگ کا ووٹر بھی کسی حد تک متاثر اور بدظن ہواہے۔" کھاتے ہیں تو لگاتے بھی ہیں" اس 'فلسفے' کو بھی مات ہوئی ہے۔ عمران خان کی کس بناء پر مخالفت ہوگی۔ وہ خود کرپٹ ہیں نہ بدعنوانی سکینڈل سامنے آیا۔ وزراء نے ہوسکتا ہے ’ماڑی موٹی صفائی‘ دکھائی ہو۔خان کی ’اے ٹی ایم‘ پر انگلی اُٹھی تو اسے ’پی ٹی ایم بنا رہے ہیں۔ آٹا چینی بحران کے ذمہ داروں کو سزا مل جاتی ہے تو پاکستان سے ہمیشہ کیلئے مافیاز کا خاتمہ ہو جائیگا اور یہ عمران خان کا قو م پر احسان ہو گا دوسری صورت میں راندۂ درگاہ ہو سکتے ہیں۔
جس نے ایک پیسے کی کرپشن کی،وہ چوراور قومی مجرم ہے۔ یہاں تو کھربوں ڈالر اڑا لئے گئے۔جس نے بھی کرپشن کی یا مافیاز سے صرفِ نظر کیا ،عوام کی نظروں میں مجرم اوراللہ کے حضور عزت کا سزا وار نہیں ہو سکتا۔ عمران خان کی اصولی مخالفت ہوتی ہے مگرجن کے مفادات زد میں آئے یا آسکتے ہیں،وہ شدتِ جذبات میں دانت پیس رہے ہیں۔خدا کرے انکے لیڈروں کی سوچ بدل جائے۔ بدلنی ہوتی تو دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے سے بدل جاتی مگر تیسری مرتبہ بھی چلن بے چلن رہا۔چوتھی بار سوراخ سے ڈسوانے پر آمادہ پُر جوش مجاہداپنی نسلوں کے مستقبل کا سوچ کر فیصلہ کریں۔
اب میجر نذیر کیساتھ پیش آئے سنسنی خیز واقعہ کا تذکرہ،وہ کہتے ہیں: جلوس کے چنگل سے نکل کر میں پہنچا، غسل کیا کھانا کھایا، ریڈیوآن کیااوریہ خبر سن کر سکتے میں آگیا۔’’ پنڈی سے گلگت جانیوالا فضائیہ کا سی ون تھری زیرو کریش ہو گیا‘‘۔مجھے لگا، موت نے مجھے زندگی کی طرف دھکا دیدیا۔

مزیدخبریں