چینی بحران رپورٹ اور میڈیا کے ’’شوز‘‘؟

وجوہ خواہ کچھ بھی ہوں حقیقت یہ ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافہ اور عدم دستیابی کے حوالے سے جس رپورٹ کے کچھ مندرجات منظرِ عام پر آئے ہیں انہوں نے عوام کو چونکا کر رکھ دیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں تو پہلے ہی کورونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں حکومتی پالیسیوں کو تنقید و تضحیک کا نشانہ بنانے پر ادھار کھائے بیٹھی تھیں کہ اب چینی بحران سے متعلق رپورٹ پر اپوزیشن رہنمائوں نے اپنی ترکش کے تمام تیروں کا رخ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی طرف کر دیا ہے۔ بعض بزرجمہروں نے تو براہ راست وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار پر اس بحران کی ذمہ داری عاید کرنے میں بھی تامل نہیں کیا۔ بلاشبہ شوگر ملوں کے مالکان اور بیوروکریسی کے کچھ مفاد پرست عناصر کی ملی بھگت کے نتیجے میں آج کی اپوزیشن کے برگد کی شاخوں پر چہچہانے والوں کے بھی چینی بحران میں زیادہ نہ سہی ایک حد تک ہاتھ رنگنے کی حقیقت بھی طشت ازبام ہوئی ہے۔ مگر مفادات کے حصول کی گنگا میں جو عناصر جی بھر کے نہائے رپورٹ میں ان کے نام آنے سے ملک کے سنجیدہ بلکہ برسرِ اقتدار قیادت کے بہی خواہ حلقوں کا لرزہ بر اندام ہونا فطری امر ہے۔ یہ بات نہ صرف باعثِ تشویش ہے بلکہ باعث مذمت و قابل نفرت سوچ کی حامل ہے کہ اگر عوام کو جس جنس کی ضرورت ہو اسے مارکیٹ اور منڈیوں سے غائب کر کے مل مالکان ملکی انتظامی کے مفاد پرست عناصر سے باہمی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں عوام کی دست برد سے باہر کر کے رکھ دیں اور اس دوران مل مالکان کو چینی جیسی عوامی ضرورت کی چیز کی برآمد کرنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ سبسڈی بھی دی جائے اور ذخیرہ اندوزی کے ناخدائوں کو چنددنوں کے اندر اندر چینی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کر کے عوام کی چیخیں نکال دی جائیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جس ملک کی معیشت پر گنتی کے چند کارخانہ داروں ، مل مالکان، اجارہ داروں کا موثر عمل دخل ہو وہاں پاکستان ایسے محروم طبقوں کی اکثریت والے ملک میں عوام کی چیخیں اور احتجاج کی آوازیں صدا بصحرا ثابت ہوا کرتی ہیں۔
بدقسمتی سے چینی کی ریکارڈ مہنگائی کا بوجھ بھی ان بزرجمہروں کی باہمی ملی بھگت کے نتیجے میں ملک کے کچلے ہوئے عوام کو سہنا پڑا جس کے ناموں کا انکشاف اس رپورٹ میں آیا ہے۔ جس پر خود حکومتی حلقے بھی انگشت بدنداں ہیں اور سب کی نظریں وزیراعظم عمران خان کی طرف لگی ہیں کہ وہ اپنے دعوئوں کی روشنی میں چینی بحران کے ذمہ داروں کے بے نقاب ہو جانے کے بعد ایسے کون سے اقدامات اٹھانے کو ترجیح دیں گے کہ انکے ایسے رویے کے نتیجے میں نہ صرف انکی اپنی پوزیشن انصاف پسند ہی نہیں بلکہ انصاف کے تقاضوں پر پورا اترنے کی دلیل ثابت ہو۔ چینی بحران کے حوالے سے منظرِ عام پر آنے والی رپورٹ نے جن داغوں کی نشاندہی کی ہے اس کے ڈانڈے براہ راست اربابِ اقتدار کے اعضاء و جوارح سے ملتے ہیں۔ شوگر ملوں کے مالکان کو چینی برآمد کرنے پر سبسڈی کس نے دی ؟ کب دی گئی؟ اس باب کو بند ہی رہنے دیا جائے تو خود انکے مفاد میں ہے، جنہوں نے اپنے وطن کے بے نوا اور غربت کے مارے عوام کے منہ سے چینی کی مٹھاس چھین کر دوسرے ممالک میں چینی برآمد کرکے سبسڈی ہی حاصل نہ کی بلکہ چینی کی سپلائی چند یوم روک کر غریب عوام کے چینی کی عدم دستیابی کے نتیجے میں بلکتے مریضوں اور بچوں کی پروا نہ کرتے ہوئے اسکی قیمتوں میں من مانا اضافہ کر دیا۔ ارباب حکومت اس لئے خاموش تماشائی بنے رہے کہ مل مالکان کو حکومتی ارکان سمیت اسکی مشینری کے بعض مفادپرست کل پرزوں کی پوری آشیرباد حاصل تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ چینی بحران کے حوالے سے زنجیر عدل ہلائی جا چکی ہے۔ ایک دستک دی جا چکی ہے۔ یہ ایک ایسی دستک ہے جس کی دھمک سوئے ضمیروں کی بیداری کا سبب بنے گی اور جاگتے ضمیروں کو پیچ و تاب کھاتے ہوئے حق و انصاف کا پرچم بلند کر کے ایسا فیصلہ دینے میں ممد ثابت ہوگی جو تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائیگا۔ اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو پھر اس ملک کے غریب‘ بے کس‘ بے بس عوام اپنے خدا سے کسی ایسے نجات دہندہ کیلئے دعاگو ہونگے جو انہیں چند ٹکوں کی خاطر انسانوں بالخصوص ہم وطنوں کا خون چوسنے والے انسان نما درندوں کے تسلط سے محفوظ رکھے۔
اس حقیقت کی جتنی بھی تعریف کی جائے‘ کم ہوگی کہ قوم کو باخبر رکھنے اور چونکا دینے والی حقیقتوں کو طشت ازبام کرنے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے تاریخ ساز کردار ادا کرنے کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے مگر جس بات کی نشاندہی کرنا ہم نے ضروری سمجھا ہے‘ وہ ’’خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے‘‘ کے مصداق ہے۔ کرونا وائرس کے سدباب اور اس کی روک تھام کیلئے جن احتیاطی تدابیر سے عوام بالخصوص مرد و زن‘ بچوں‘ بوڑھوں وغیرہ کو آگاہ کرنے کا تعلق ہے۔ صرف اور صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی کا کمال ہے کہ یہ سب احتیاطی تدابیر پر کس و ناکس کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے اور وہ ان تدابیر کو اختیار کرنا اور ان پر عمل کرنا جزو ایمان کی سی حیثیت دے رہے ہیں۔ منہ پر ماسک لگانے‘ ہاتھوں کو صابن سے بار بار دھونے اور حتیٰ کہ گھروں سے بلا ضرورت بازاروں میں نہ آنے جانے تک کی ہدایات پر عمل دیکھنے میں آرہا ہے۔ خود میڈیا کی طرف سے لوگوں کو احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی ہدایات کرتے ہوئے اس بات پر بطور خاص زور دیا جا رہا ہے کہ کسی بھی جگہ بالخصوص ایک کمرے یا ہال میں عوام کا ہجوم نہ ہونے پائے‘ لوگ چھوٹے ہوں یا بڑے‘ مرد ہوں یا خواتین‘ کسی بھی جگہ ایک ساتھ نہ بیٹھے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی ہی ہدایات کی روشنی میں ارباب اختیار یا حکومتی ارکان بھی اپنے اجلاس اور پریس کانفرنسوں میں دور دور نشستوں پر براجمان ہوتے ہیں۔ مگر یہ بات پوری قوم کیلئے لمحۂ فکریہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے بعض بلکہ اکثر چینلز پر خواتین کے ماڈلنگ شوز اور انعامی شوز میں ایک ہی کمرے یا ہال میں مردوں‘ عورتوں اور بچوں کا جم غفیر دیکھنے میں آرہا ہے۔ ملک میں کرونا وائرس کی یلغار کی موجودگی میں الیکٹرانک میڈیا سمیت ارباب اقتدار کو بھی اس حقیقت حال کا نوٹس لینا ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسے اجتماعات کرونا وائرس کی موجودگی میں کسی المیہ کا سبب بن سکیں۔

ای پیپر دی نیشن