کروناکی وباء کیسے ٹلے گی؟

کورونا وائرس کی وبا کے باعث دنیا کے بیشتر ممالک میں لاک ڈائون کیا گیا ہے جس سے غریب اور روز کماکر کھانے والے طبقے سخت پریشانی کا شکار ہیں ۔ حکومت نے بھی بغیر کسی پیشگی تیار ی کے سب کچھ بند کردیا ہے ، لیکن کسمپرسی کا شکار لوگوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی ۔ سرکاری اداروں نے ساری توجہ مساجد بند کرنے پر مبذول کررکھی ہے۔غریب اس لاک ڈائون سے کس حال میں ہیں اس کی کسی کو پرواہ نہیں ہے اگر خدانخواستہ سیلانی ویلفیئر ، عالمگیر ویلفیئر ، الخدمت فائونڈیشن ، جماعت صوفیاء اسلام اور دیگر رفاہی ادارے نہ ہوتے تو شاید ایک ہفتے میں ہی ہزاروں لوگ فاقوں سے مرجاتے۔ ملک کی 30% سے زائد آبادی پہلے ہی خط غربت کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے ۔ میں شجاع آباد کا رہائشی ہوں ۔ اس پسماندہ تحصیل میں ایک بزرگ مسیحا شیخ الاسلام حضرت پیر فقیر محمد اعجاز الحسنین بھی رہتے ہیں۔ ان کی لاک ڈائون کے موقع پر غریب لوگوں کے گھر وں میں راشن پہنچانے کی خدمات سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ان کے سینکڑوں کارکن رات کے اندھیرے میں خاموشی کے ساتھ غریب کے گھر کا دروازہ بجا کر راشن دے آتے ہیں ۔ ایسے حضرات انسانی جتھا اور ان کی تقویت کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ اب لاک ڈائون نے غریبوں کو ایک وقت کی روٹی سے بھی محروم کردیاہے۔ بھوک اور افلاس کا شکار یہ لوگ اب لاک ڈائون کی پرواہ کیے بغیر جگہ جگہ سڑکوں پر نکلتے نظرآتے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اور اُن کی حکومت اس مفلوک الحال طبقے کیلئے کوئی سرکاری ریلیف یا ہنگامی فنڈ دینے کے بجائے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور مخیر حضرات سے چندہ دینے کی اپیلیں کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم عمران خان اب بھی ریاست مدینہ کی رٹ لگا کر نہیں تھکتے ، مگر ریاست مدینہ کے سربراہوںکے طریقے پر چلنے کے بجائے وہ دوسروں سے اپیلیں کرتے رہتے ہیں ۔ مدینہ اور اطراف میں جب قحط سالی کی آفت آئی تو امیر المومنین سیدنا عمر فاروق ؓ نے اپنے اوپر گھی اور مرغن غذائوں کو بند کردیا تھا اور قوت لایموت پر گزارہ کرکے ان کی جسمانی حالت بھی نہایت لاغر ہوگئی تھی۔اگر آپ ان مقدس شخصیات کی پیروی نہیں کرسکتے تو کم از کم موجودہ دور کے عظیم مسلم لیڈر ترک صدر رجب طیب اردگان کوتو اپنے لیے ماڈل بنا سکتے ہیں ۔ ترک صدر نے کرونا سے نمٹنے کیلئے اپنی 7ماہ کی تنخواہ پیشگی اس فنڈ میں جمع کرادی ۔ اردگان کو دیکھ کر ترکی کی مال دار شخصیات، نجی کمپنیاں اور عام افراد نے بھی اس فنڈ میں بڑھ چڑھ کر مالی تعاون کرنا شروع کردیا۔ترک میڈیا کے مطابق صرف 72گھنٹوں میں 552ملین ، 5لاکھ 29ہزار 912لیرہ جمع ہوئے ۔ اِدھر لاک ڈائون اور پابندیاں لگانے میں سب سے آگے سندھ حکومت بھی غریبوں کو راشن پیکج دینے کے اعلانات تک محدود ہے ۔ عملی میدان میں ابھی تک کوئی کام نہیں کیا گیا، حالانکہ ارب پتی شخصیات اور سیاستدان اپنی دولت کا ایک معمولی حصّہ بھی خرچ کریں تو ملک میں کوئی بھوکا نہیں رہے گا۔ دنیا کے مختلف ممالک میں صاحب ثروت افراد نے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے ہیں ، حالانکہ ان میں سے بیشتر کا ر آخرت پر ایمان نہ ہونے کے باعث انہیں کسی اجرو ثواب کی بھی اُمید نہیں ہے۔ صرف انسانی ہمدردی کے تحت وہ سب کچھ کررہے ہیں ۔ پرتگا ل کے معروف فٹبالر کرسٹینا رونالڈو نے اپنے تمام پرتعیش ہوٹلز کرونا متاثرین کیلئے طبی مراکز، قرنطینہ سنٹرز میں تبدیل کردیے ہیں اور تمام متاثرین کا علاج معالجہ بھی اپنی جیب سے کررہے ہیں ۔انڈیا میں کرکٹرز ، فلمی اداکار ، اور مالدار افراد بھی کرونا وائرس سے نمٹنے کیلئے کروڑوں روپے کے فنڈ دے رہے ہیں ، لیکن پاکستان میں اب تک کوئی قابل ذکر نام سامنے نہیں آیا ، جبکہ یہاں بھی مالدار افراد کی کمی نہیں ہے ۔بلاشبہ اتنی دولت کے مالک لوگ بھی وطن عزیز میں ہیں جن میں ایک فرد بھی تمام متاثرین کی اشک شوئی کرسکتا ہے ، لیکن اب تک کسی نے انسانیت کے ہمدرد ہونے کا ثبوت نہیں دیا۔الیکشن کے موقع پر ووٹ حاصل کرنے اور سینٹ کیلئے ایک ایک رکن کو خریدنے کیلئے کروڑوں روپے خرچ کرنے والے سیاستدان اس مشکل گھڑ ی میں دولت پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں ، جبکہ ذاتی عیش وعشرت پر بھی یہ لوگ دولت پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ ہو نا تو یہ چاہئے تھا کہ دیگر ممالک کے مالداروں کی طرح یہ خود آگے بڑھ کر انسان دوستی کا ثبوت دیتے ،لیکن ہمارے ارکان اسمبلی سمیت تمام سیاستدان آنکھوں میں سرمہ اور پائوں میں مہندی لگا کر آرام فرما رہے ہیں ۔
اس وقت ایک تکلیف دہ صورتحال یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ غریبوں کی معمولی امدا د کرکے ان کی عزت نفس پوری طرح مجروح کردیتے ہیں ۔ کئی افراد مل کر آٹے کا ایک تھیلا کسی غریب کو پکڑا کر اس کی تصویر بنا لیتے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل کردیتے ہیں ۔ورونا وائرس کی وباء نے سپر پاور سمیت دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کردیا ہے ۔ یہ تو خدا کا بڑا کرم ہے کہ تمام تر حکومتی غفلت اور نا اہلی کے باوجود وطن عزیز میں ابھی تک یہ جن قابو ہے۔ اگر خدانخواستہ یورپ کی طرح یہاں بھی کرونا پھیلتا تو ہمار ا کیا حال ہوتا۔اس پر خالقِ کائنات کا جتنا شکر ادا کیا جائے ، کم ہے ، اب اگر اس وباء سے ہم مکمل طور پر نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے رب کی رحمت کواپنی جانب متوجہ کرنا ہوگا اور اِس کی رحمت کو متوجہ کرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ دعائوں کے ساتھ صدقہ خیرات ہے ۔ ہمیں حکومت کی طرف نہیں دیکھنا چاہئے جس کے بس میں جتنا ہے وہ مزدور پیشہ اور غریب طبقے کی مدد کرے اس سے محروم اور مفلوک الحال طبقے کی اعانت بھی ہوجائے گی اور پورا ملک بھی کرونا کی وباء سے نجات حاصل کر لے گا۔صدقہ کی بے شمار برکات اور فضائل کا قرآن وسنت میں بیان ہو اہے ان میں ایک یہ بھی ہے کہ صدقہ خیرات سے ہر قسم کے مصائب وآفات اور بلائیں ٹل جاتی ہیں ۔ حدیث پاک میں ہے ’’صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بُری موت سے بچاتا ہے۔ ‘‘تو کرونا کی بلا کو ٹالنے کیلئے بھی صدقہ و خیرات کا ہتھیار استعمال کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔

ای پیپر دی نیشن