اُندلس کے قیدی کی شان!

اندلس )سپین( کا بہت پرانا اور یادگار واقعہ ہے اس وقت بنو اُمیہ کی حکومت تھی اور عیسائی بہت بڑی تعداد میں تھے۔ عرب کا ایک نوجوان مسلمان شکار کے لیے وہاں گیا۔ اس کی ایک عیسائی سے ملاقات ہوئی دونوں شکار کے لیے روانہ ہوگئے۔ دورانِ شکار ایسی صورت حال پیدا ہو گئی کہ درمیان میں شکار اور دائیں بائیں شکاری تھے۔ دونوں کے درمیان مشورہ ہوا۔ فیصلہ ہوا کہ مسلمان تیر چلائے گا اور عیسائی دوسری طرف ہٹ جائے گا تاکہ تیر جانور کو لگ سکے۔مگر ایسا نہ ہوا، تیر عیسائی کو لگا وہ گرا اور دم توڑ گیا۔ عرب نوجوان نے ساری صورتحال مقتول کے لواحقین کو بتائی۔ مگر وہ نہ مانے بضد رہے کہ یہ دانستہ قتل ہے۔مقدمہ عدالت میں جا پہنچا، مقتول پارٹی نے جھوٹے سچے کئی گواہ بنا کر ڈٹ کے کیس لڑا، گو جج مسلمان تھا مگر سارے شواہد عرب نوجوان کے خلاف جا رہے تھے, اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ نوجوان کو جیل مخصوص کوٹھڑی میں بند کر کے پھانسی کیلئے تاریخ کا اعلان کر دیا گیا۔ وہاں پہنچ کر نوجوان ایک تو زندگی کے آخری دن گزار رہا تھا اور دوسری طرف یہ دعا کر رہا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کا اس طرف چکر لگ جائے۔ ایک دن اس کی دعا قبول ہوئی۔ جیلر سامنے کھڑا تھا۔ نوجوان نے اس سے التجا کی کہ اس کے بیوی بچے عرب میں فلاں جگہ پر قیام پذیر ہیں ، انہیں کچھ خبر نہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے ضمانت پر رہا کر دیا جائے تاکہ ایک تو وہ انہیں بتا سکے اور دوسرا ان کا کوئی انتظام وغیرہ کر سکے۔ ساتھ ہی وعدہ کیا کہ وہ پھانسی والے دن ہر صورت پہنچ جائے گا اور کوئی وعدہ خلافی نہیں کرے گا۔ آفیسر نے اس سے پوچھا کہ ضمانت کون دے گا؟ اس نے بتایا کہ اس شہر میں اس کی کسی سے کوئی جان پہچان نہیں۔ جیلر نے پوچھا کوئی اور طریقہ، نوجوان نے کہا کہ وہ مسلمان ہے اور اللہ کے سوا اس کا کوئی ضمانتی نہیں۔ یہ سننا تھا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اس نے وارڈن کو بلایا اور عرب نوجوان کو رہا کر دیا۔ نوجوان گھر پہنچا۔ بیوی بچوں کوساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ ان کے لیے جو ضروری انتظامات چاہئیے تھے ان کا بندوبست کرنے لگا۔ پھانسی کا دن قریب آ چکا تھا۔ اس وقت کے قانون کے مطابق پھانسی سے دو دن قبل ملزم کو عدالت میں پیش کر کے آخری کاروائی کی ضرورت تھی۔ ملزم کی غیر موجودگی میں جیل سپرنٹنڈنٹ کو عدالت میں طلب کر کے جواب طلبی کی گئی۔ عدالت کے روبرو اس نے بتایا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پر نوجوان کو رہا کیا ہے، مگر وہ پھانسی والے دن یہاں پہنچ جائے گا۔ جج نے پوچھا کہ اگر وہ نہ آ سکا تو پھر! آفیسر نے جواب دیاکہ میں قانون کے مطابق ہر طرح کی کاروائی کا سامنا کروںگا۔ پھانسی والا دن آن پہنچا۔ حتیٰ کہ پھانسی کا وقت بھی، پھانسی گھاٹ پر جج، دیگر عدالتی عملہ اور جیل کے تمام ضروری لوگ حاضر تھے۔ ملزم کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ تھا۔ جیلر کے چہرے پر بھی پریشانی کے آثار نمایاں ہونے لگے۔ جج کے ماتھے کی شکنیں صاف پڑھی جا سکتی تھیں۔ دوسری طرف ہزاروں کا مجمع تھا جس میں جیل سپرنٹنڈنٹ کی فیملی اور دیگر رشتہ دار بھی موجو دتھے۔ پریشانی اور اضطراب بڑھتا جا رہا تھا کہ دور سے مٹی اڑتی نظر آئی، کچھ ہی دیر میں اور گہری ہوگئی دیکھا کہ ایک نوجوان تیزی سے اس مجمع کی طرف بڑھ رہا ہے۔ قریب پہنچا تو وہی ملزم تھا۔ آتے ہی اس نے جیلر سے معافی مانگی کہ ہوا کا رخ مخالف تھا اس لیے بحری جہاز میں آتے صرف چند منٹ کی تاخیر ہوگئی۔ جب اس نوجوان کو پھانسی گھاٹ کی طرف لے کر جایا جا رہا تھا تو مقتول کے والد آگے بڑھے اور جج سے مخاطب ہو کر کہا کہ رک جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میرے بیٹے کا قاتل نہیں ہے سچائی کچھ اور ہے۔ جج نے نوجوان کی رہائی کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ سے متاثر ہو کر جیل سپرنٹنڈنٹ اس کے خاندان سمیت سینکڑوں لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ یہ ہے ایک مسلمان کا کردار! اب آتے ہیں اپنے ملک کی طرف میں اس مشکل ترین وقت میں جب کہ ہم وبائی مرض کا شکار ہیں۔ سارا ملک لاک ڈائون ہے۔ کاروبار ہے اور نہ ہی روزگار، مرض بڑھتی جا رہی ہے اور وسائل کم دوسری طرف ماضی کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہم معاشی طورپر انتہائی غیر مستحکم ہیں۔ آمدن ہو نہ ہو ہمیں وصول قرض کی خاطر ہر سال بہت ہی معقول رقم بھیجنی ہوتی ہے۔ سیاسی حالات بھی انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ایسے حالات میں کے نئی ملازمتوں کا انتظام ہو سکے ، لاکھوں شہری بے روزگار ہو چکے ہیں۔ ہم ہر روز ایسی خبریں سنتے ہیں کہ گاڑیوں کو لوگوں نے روکنا اور زور زبردستی پیسے وصول کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ اس سے پہلے کہ انارکی بہت ہو جائے۔ اس سے پہلے کہ غریب اپنی بے بسی، مجبوری اور بھوک کی خاطر امیروں پر حملہ آور ہو جائے۔ خدا کے لیے اپنی اپنی انا کی چادر اتار دیں اور سچے پاکستانی بن جائیں۔ ہر روز نت نئی خبریں آ رہی ہیں کہ وزیر اعظم نے اسمبلیاں توڑنے کی خاطر سمری صدر تک پہنچا دی ہے۔ کہ وزیراعظم قوم سے خطاب کرنا چاہتے ہیں مگر انہیں اپنی مرضی کی تقریر کرنے کی اجازت نہیں کہ وزیراعظم کو اسمبلیوں میں اکثریت حاصل نہیں رہی۔ وزیراعظم اب کسی کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خواہشمند نہیں۔ دوسری طرف یہ کہا جا رہا ہے کہ مقتدرہ قوتیں محض بجٹ کے انتظار میں ہیں تاکہ ہربرائی موجودہ حکومت کے کھاتے میں جائے اور نئی بنائی جانے والی حکومت نئے عزم کے ساتھ کام کرے۔ ایسے حالات میں سچ بات یہ ہے کہ افواجِ پاکستان ہی وہ واحد ادارہ ہے جو ان مشکل اور نازک لمحوں میں اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ کس کی قیادت میں کرنا ہے یہ ان کا مسئلہ ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ ہمیں اس وقت اُندلس کے اس قیدی کی طرح ایک صاحبِ کردار شخصیت کا انتظار ہے۔ حالات کیسے بھی ہوں جو قوم سے کیا گیا ہر وعدہ پورا کر سکے۔ مشکل کی اس گھڑی میں قیادت سنبھال کر کردار کا مظاہرہ کر سکے۔ ساتھ یہ بھی گزارش ہے کہ جتنی معلومات افواجِ پاکستان کے پاس ہے کسی اور کے پاس نہیں۔ احتساب ہو رہا ہے مگر ڈھیلا ڈھالا۔ چور کون ہیں اور لُٹیرے کون سب کچھ معلوم ، قرضے کس کس نے لیے اور معاف کروائے۔ سب معلوم، ٹیکس چور کون ہیں اور بجلی چور کون، سب معلوم، بیرون ملک جائیدادایں کس کی ہیں اور رقم باہر کیسے گئی۔ سب معلوم ، کس کس ادارے میں لُٹیرے اور رشوت خُور کہاں پر ہیں اور ان کے تانے بانے کس کس سے ملتے ہیں، سب معلوم، چینی ہو یا آٹا، سیمنٹ ہو یا سریا، گھی ہو یا کاٹن، ہر جگہ پر بیٹھے مافیا کی سب فائلیں موجود، لینڈ مافیا کیا کر رہا ہے اور اس کے مزید عزائم کیا ہیں سب معلوم، والیم 10 میں کیا ہے، اس کی تفصیل کیا ہے۔ وہ راز ملکی سلامتی سے کس قدر جڑے ہیں۔ اَدب سے درخواست ہے کہ اسے بھی پبلک کر دیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ ہمارے سیاستدانوں اور دیگر بہی خواہوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ میمو گیٹ کیا تھا؟ حسین حقانی کو کیوں نہیں لایا جا سکا، زرداری کا کیا کردار تھا۔ اس طرح ڈان لیکس میں اصل ذمہ دار کون تھا؟ سب کو بے نقاب کیا جائے اور پھر اُس کا بے رحمانہ احتساب ہو اور عوام کے لوٹے ہوئے پیسے ہرصورت واپس لائے جائیں۔ اگر عمران خان کو ہی آگے چلانا ہے تو پھر کھل کر اس کی مدد کریں۔ کچھ بھی ہو خدا کے لیے اندلس کے قیدی کا ایمان اور جذبہ چاہئیے۔ یہ ملک ہمیں بہت ساری قربانیوں کے ساتھ روحانی طاقتوں کی مدد سے ملا ہے۔ خدا کے لیے اسے بچالیں!

ای پیپر دی نیشن