کورونا جر ثومہ اور صفائی کی اہمیت

Apr 11, 2020

سلطان محمود حالی

دنیا بھر میںکورو نا جر ثومہ اپنی پوری قوت سے پھیل چکا ہے اور اس نے لاکھوں قیمتی جانوں کا نقصان پہنچایا ہے۔ کورونا جرثومہ نے نہ نسل ، رنگ اور مذہب کی تفریق کی نہ شاہ یا گداگر کی۔ برطانیہ کے شاہی خاندان کے فرد اور ولی عہد شہزاد ہ چارلس ہوں یا برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن ، کناڈا کے وزیراعظم کی اہلیہ یا معروف گلوکار سلمان احمد سب نے اس موزی فرح کے آگے گھنٹے ٹیک دئے۔ایک امر مشترک ہے۔ سماجی کارکن ،ڈاکٹر اور سیاسی کارکن سب کی ایک ہی ہدایت ہے کہ صفائی برقرار رکھیں۔ یہ ہدایت اللہ تعالیٰ کی جانب سے بھیجی گئی کتاب قرآن حکیم میں جگہ جگہ موجود ہے۔ صحیح مسلم حدیث نمبر534 کے مطابق ’’ صفائی نصف ایمان ہے۔‘‘ ابو مالک العشری نے اجاگر کیا کہ اس مستند حدیث میں صرف جسمانی صفائی کو اہمیت نہیں دی بلکہ روحانی صفائی پہ بھی زور دیا۔ روحانی صفائی سے مراد ایمان اور اللہ پہ یقین ہے تاکہ ہمازا ذہن وسوسوں اور برے خیالات سے پاک ہو اور ہم نیک اعمال کی جانب مائل ہوں۔قرآن پاک جو سر چشمہ ہدایت ہے، سورۃ المائدہ کی آیت نمبر:6 میں صلاۃ یعنی نماز سے قبل وضو، غسل یا پانی کی غیر موجودگی میں یتمم کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔یہاں یہ واضح کرنا لازم ہے کہ لوگوں کو اسلام کے ابتدائی ایام میں کئی صدیوں تک مسجد میں نماز کی خاطر داخل ہونے سے قبل گھروں سے وضو کرکے آنے کی ہدایت تھی۔ لوگ وضو کرنے کے بعد چمڑے سے بنے ہوئے خصوصی موزے یا ئے تابے پہن کر جوتے پہن لیتے ۔مسجد پہنچ کر اپنے جوتے باہر چھوڑدیتے اور پائے تابے میں مسجد میں داخل ہوتے اور نماز پڑھتے۔ مسجدوں میں دبیز قالینین نہ بچھی ہوتیں بلکہ فرش یا چٹائی پہ ہی نمازپڑھی جاتی۔ اس فرش کو دھونا اور صاف رکھنا بھی آسان ہوتا۔بعد میں لوگوں نے مساجد کو قالینوں سے آراستہ کر نا شروع کیا جو جرثومے کا گھر بن جاتی ہیں۔ اسی طرح مسجدوں کے ساتھ وضو خانے کی وجہ سے لوگ وضو کے دوران چھینٹے اڑاتے اور وضو کے بعد گیلے پائوں سے مسجد کی صفوں پہ جا کر بیٹھ جاتے۔ اور یہ نمی جراثیم کا باعث بنتی ہے۔کورونا جرثومہ کے متعلق طبی ماہرین نے بتایا ہے کہ اس مرض میں مبتلا لوگ جب گھروں سے باہر نکل کر سڑکوں اور راستے پہ ہوتے ہیں کو چھینک ، کھانسی یا سانس لینے کے دوران بھی کورونا جرثومے خارج ہو کر زمین پہ گرتے ہیں تو ہمارے جوتوں سے لگ کر ہمارے گھروں میں داخل ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ عرب ممالک میں ابتک جوتے گھر سے باہر اتارکرداخل ہوتے ہیں۔صفائی کا یہ اہم عنصر صرف عالم اسلام ہی نہیںبودھ مت کے پیروکاروں بودھ مت کے پیروکار جہاں بھی بستے ہیں مثلا تھائی لینڈ، چین، سری لنکا، جاپان، کوریا، وغیرہ وہاں لوگ اپنے جوتوں کو گھروں س باہر ہی اتار کرآتے ہیں۔
جاپانی تو بیرونی گند باہر ہی چھوڑ کر گھروں میں داخل ہونے کے عمل کو مزید آگے لے گئے ہیں۔ وہ گھروں میں داخل ہونے سے قبل نہ صرف اپنے جوتے باہر اتار دیتے ہیں بلکہ گھر کے اندر پہننے کی خاطر کپڑے کی بنی ہوئی دبیز چپلیں ہوتی ہیں جو بعد میں دھو کر دوبارہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔صفائی سے متعلق عیسائیت اور یہودیوں کے مذہب میں بھی واضح ہدایات ہیں ۔ انجیل اور تورات میں یہ عبارت پائی جاتی ہے کہ ’’ صفائی تقویٰ کے برابر ہے۔‘‘ موجودہ گھڑی میں ہم صفائی کی اہمیت اور آلودگی سے بچائو کے لیے عالمی دن مناتے تھے۔ ہاتھ صاف رکھنے اور صابن سے ہاتھ دھونے کا مخصوص دن منایا جاتا تھا لیکن کورو نا جرثومہ نے ہمیں یہ احساس دلایا کہ ہمیں بردم ہر گھڑی صاف رہنا چاہیے۔ ہم جگہ جگہ کوڑاکرکٹ پھینکے اور گندگی کے ڈھیر جمع کرنے کے عادی ہوچکے تھے۔ یہی دیکھا جاتا کہ لوگ لاپرواہی سے اپنا کوڑا پڑوسی کے دروازے پہ یا سڑک پہ پھینک دیتے جس سے شائد اپنا گھر تو صاف رہتا لیکن یہی کوڑاکرکٹ نہ صرف ارد گرد بلکہ اپنے گھر کے ماحول کو بھی خراب کرتا ہے، حالانکہ حکومتی سطح پر کوڑااٹھانے کا معقول بندوبست ہے۔ جہاں ماحول کو صاف رکھنے کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ ہم خود اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے بناہ سکتے ہیں۔ابتدائی سطروں میں ہمارے پیارے نبیؐ کے فرمان عالی شان کا ذکر کیا گیا جن کی تعلیمات پر عمل کرنے میں بنی نوع انسان کی کامیابی اور نجات کاراز ہے۔ کو رونا جرثومہ کی یلغارنے ہمارے پیارے نبیؐ کی تعلیمات کو مزید اجاگر کردیا کہ صفائی ، ستھرائی سے بڑی حدتک آلودگی پر قابو پایا جاسکتا ہے اور کورونا جرثومہ جیسے موذی وائرس سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔ دھلاہوا لباس جسم کی حفاظت کرتا ہے اور بیرونی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ شرط یہ ہے کہ ہاتھ، منہ اور باقی جسم کو پاک رکھا جائے۔کورونا وائرس کی وبا ہمارے گناہ اور ہمارے اعمال کی سزا ہے ۔ یہ ایسی آفت نازل ہوئی ہے جس نے ہمیں احساس دلادیا کہ ہماری دولت، طاقت، گھمنڈ سب مثبت ایزدی کے سامان بے بس ہے۔ اٹلی جہاں چین سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اور جوترقی یا فتہ ممالک میں شمار کیا جاتا تھا وہاں وزیراعظم گئیو سپ کونئے نے22مارچ2020؁ء کو قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔’’ ہم زمین پہ بے بس ہو چکے ہیں، اب ہم آسمان سے رحمت طلب کرتے ہیں‘‘۔اللہ تعالیٰ جو تما م انسانیت کا رب ہے ہمیں پہلے ہی صفائی کی اہمیت سے آگاہ کر چکا ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا۔ اتنی واضح حکمتوں کو ہم نے بھلا کر خود اپنے لئے تباہی کا اہتمام کیا۔ اب یہ لازم ہے کہ اللہ سے لولگائیں، اپنے گناہوں کی معانی طلب کریں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں ۔اسی میں ہماری بقاء ہے۔

مزیدخبریں