28 دسمبر 1906ء کو نواب سلیم اللہ کی کوششوں سے آف ڈھاکہ میں ایک جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا جسے آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اسی جماعت کے پلیٹ فارم سے مسلمانان ہند نے تحریک پاکستان کے دوران حصول پاکستان کی جدوجہد کا کامیابی سے ہمکنار کیا۔ قائدین مسلم لیگ لیاقت علی خان، مادر ملت، شیر بنگالی مولوی فضل حق، حسین شہید سہروردی، چوہدری خلیق الزمان، محمود علی، خواجہ ناظم الدین، نورالاامین، مولانا عبیداللہ سندھی، عبداللہ ہارون، سردار عبدالرب نشتر، خان عبدالقیوم خان، پیر صاحب زکوڑی شریف، پیر صاحب مانکی شریف، سردار عبدالقیوم خان، کے ایچ خورشید راجہ صاحب محمود آباد، نواب بہادر یار جنگ قاضی عیسی، سردار جمال لغاری، مولانا جوہر علی، مولانا شوکت علی، سرآغا خان نواب اسمعیل، ریاض ایڈووکیٹ، شیخ کرامت، میاں محمد شفیع، بیگم سلمی تصدق، چوہدری رحمت علی، میاں فرزند الدین، مولانا ظفر علی خان،جناب حمید نظامی مدیر اعلی نوائے وقت اور مجید نظامی ایڈیٹر انچیف نوائے وقت پوٹھوہار سے سیکرٹری جنرل مسلم کپتان برکت حسین شیخ (گولڈ میڈلسٹ) چوہدری ریاض اختر ایڈووکیٹ اور سید مصطفی شاہ گیلانی نے دن رات مشن پورا کیا۔ بابائے قوم نے اپنی عملی سیاست کا آغاز 1905ء میں کیا۔1913ء میں مولانا جوہر کی مشاورت سے آپ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ آپ نے کانگریس اور مسلم کے ساتھ بیک وقت کام کیا اور ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کہلائے 1916ء میں
دونوں جماعتوں کے رہنمائوں نے باقاعدہ ملاقات کی اور لکھنو پیکٹ عمل میں آیا اسی دور میں پہلی جنگ عظیم شروع ہو گئی۔ 1923ء میں جب مسلمانوں کی واحد قوت سلطنت عثمانیہ کے خلاف سازشیں شروع ہوئیں تو مسلم عوام نے ہندوستان اور ساری دنیا میں مظاہرے کئے۔ نہرو رپورٹ کے جواب میں 1929ء میں قائد نے مسائل کے حل کے لئے چودہ نکات پیش کئے چنانچہ برطانوی حکومت نے لندن گول میز کانفرنس کا اعلان کیا۔ جس میں تمام انڈین لیڈروں کو شرکت کی دعوت دی۔ یہ کانفرنس بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔ 1930ء میں علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں جس میں مسلمانوں نے الگ مملکت کے خدوخال کا اظہار کیا گیا تھا۔یاد رہے لندن گول میز کانفرنس 1930/31/32 میں ہوئیں اسی دوران برطانیہ میں مقیم کیمرج یونیورسٹی لندن کے سٹوڈنٹ چوہدری رحمت علی نے ایک پملفٹ نو اینڈ نیور تقسیم کیا ۔آخر کار برطانوی حکومت نے انڈیا ایکٹ 1935 ء کا اعلان کر دیا جس کے تحت دو مرحلوں میں یعنی 1936/37 ء میں عام انتخابات پر زور دیا گیا۔ محمد علی جناح جو مقامی سیاست سے بد دل ہو کر برطانیہ چلے گئے۔ علامہ اقبال کے خطوط لکھنے پر واپس تشریف لے آئے اور مسلم لیگ نہ صرف صدارت کی بلکہ تنظیم نو بھی کی ان الکیشنز میں مسلم لیگ کوئی قابل ذکر کامیابی تو حاصل نہ کر سکی لیکن اپنی شناخت کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ 1938ء میں مسلم عوام کو علامہ اقبال کی رحلت کا صدمہ سہنا پڑا۔ 1939ء میں دوسری جنگ عظیم کا شروع ہوگئی۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے 1940ء میں لاہور کے منٹو پارک میں اپنے تین روزہ جلسہ عام ہوا۔ جس میں قرار داد لاہور منظور کی گئی جسے مخالفوں نے قرارداد پاکستان کا نام دے کر ساری
دنیا میں مشہور کر دیا اور یہ نام جو مسلمانان ہند کی منزل ٹھہرا۔ نوائے وقت، ڈان، اور منشور نے کلیدی کرادا ادا کیا اور ان کی کوشش قیام پاکستان پر جا کر ختم ہوئیں۔پاکستان کا قیام کوئی معمولی واقعہ نہں قوموں کی برادری میں با وقار مقام کے حصول لے لئے ان سب پر عمل ضروری ہے۔ پاکستان کو ابھی صرف اور صرف 73 سال سے کا عرصہ ہوا ہے۔ نہ صرف یہ کہ اپنی اسلامی نظریاتی جمہوری پر امن بقائے باہمی کے لئے کام کرنا ہے بلکہ دوسروں کو بھی تحفظ دینا ہے ہماری شاندار اسلامی ریاست جو ہمیں نیکی اور بھلائی کا درس دیتی ہے۔اب آپ ہمارے آج کے طرز حیات کی طرف کیا ہم نے ان
بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہیں ہرکز نہیں۔ ہماری آج کی بے پناہ مشکلات اسی وجہ سے ہیں۔ آیئے ان مشکلات پر قابو پائیں۔ قائدو اقبال اور دوسرے محسنوں کی روحیں ہمیں پکاررہی ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران ہمارے مثالی اتحاداور رویوں نے صرف سات سال کی مختصر مدت میں اپنے دشمنوں کو ناک آئوٹ کرتے ہوئے ایک خواب کو حقیقت میں ڈالا تھا عوام آج بھی اپنے اندر اصلاح احوال کا جذبہ پیدا کرلیں۔
اپنے ووٹ کا استعمال ذمہ داری سے کریں تو سیاسی گروپس اور جماعتوں کی مجال نہیں کہ وہ اپنے پروگرام سے ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوں۔ سیاسی جماعتیں اپنے اندر بھی پروگرام اور جمہوریت کو رواج دیں اور سول سوسائٹی کو مظبوط بنانے کے لئے کام کریں تو کسی کو غیر جمہوری قدم اٹھانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔
اسلامی، جمہوری، نظریاتی اور پاکستان
Apr 11, 2021