اخبار نویس کی رات آخری پہر سے شروع ہوتی ہے اور دن کا آغاز عموماً دوپہر کے بارہ بجے۔زندگی بھر یہ معمول رہا کہ رات کو اخبار کی خبریں فائنل کرکے دوسرے شہرکا سفر شروع کیا۔ مجھے روٹین میں مہینے میں دوتین بار لاہور جانا پڑتا ہے اس کے علاوہ بھی صحافتی ذمہ داریوں کیلئے مختلف شہروں میں آنا جانا لگا رہتا ہے۔ آپ کسی بھی شہر میں داخل ہوں فجر سے کچھ دیر پہلے اور کچھ دیر بعد سڑکوں پر تیزی سے سائیکل چلاتے، موٹر سائیکل دوڑاتے اخبار فروش ہی نظر آئیں گے۔ نورِِِسحر سے لیکر طلوعِ آفتاب اور رات کے آخری پہر میں اُٹھ کراپنے بابرکت رزق کے منہ لگنے والے پاکستان کے لاکھوں اخبار فروشوںکی زندگی بڑی تلخ ہے ۔ بارش ہو یا طوفان، شدت کی دھند ہو یا سخت سردی ، اخبار فروش نے اخبار اُٹھا کر گھرگھر تک پہنچانا ہوتا ہے۔اس کے ساتھ حادثات بھی ہوتے ہیں اور وارداتیں بھی ۔ ہرسال شدید دُھند میں اخبار فروشوں کی حادثات میں اموات کی اطلاعات بھی ملتی ہیں، دوردرازعلاقوں میں صبح سویرے اخبار کے انتظار میں سڑک کنارے کھڑے ہونا اور فراٹے بھرتی ہوئی بس کا بریک کے اشارے سے سپیڈ توڑنا اور بنڈل پھینک دینا اوراخبار فروش اگر موجود نہ ہوتو بنڈل کا غائب ہوجانا یہ وہ مسائل ہیں جن سے سالہا سال سے ہمارے نیوز ایجنٹ حضرات اور اخبار فروش بھائیوں کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انکی اکثریت ان پڑھ ہے مگر انکے ہاتھوں سے معلومات کا خزانہ انتہائی معمولی معاوضے پر ان لوگوں کے گھروں تک پہنچتا ہے جن کے نزدیک بھرے ہوئے پیٹ کے باوجود پانچ سات سو کی آئسکریم اورکھانے کے بعد ہزار پندرہ سو کا پیزا کھانا تو معمولی بات ہے۔ البتہ معلومات سے بھرے اخبار کا چھ سو بل دینا انہیں عذاب لگتا ہے اور ویسے بھی جس شہر میں کبابوں کی پچاس ہزار اور کتابوں کی پچاس دکانیں ہوں وہاں علم و ادب کی کیا حیثیت ہے ؟ ان حالات میں ہمارے اخبار فروش بھائی کام کرتے ہیں اور حیران کن امر یہ ہے کہ انکی عید بھی اگلے روز سے شروع ہوتی ہے کیونکہ جب باقی لوگ عید پڑھ رہے ہوتے ہیں یہ لوگوںکے گھروں میںاخباریں ڈال رہے ہوتے ہیں ۔
جمعۃ المبارک کے دن میں اپنے بھائیوں جیسے دوست اور اخبار فروش رہنما ملک بلال کی رسم قُل میں شریک تھا‘ ان کا انتقال چار اپریل کو اس وقت ہوا جب اس کی بیٹی کی رخصتی کیلئے بارات کی تیاریاں ہورہی تھیں ۔ یکم اپریل کو وہ اپنے بیٹے کے ہمراہ میرے دفتر میں میرے پاس بیٹھا ضد کررہا تھا کہ آپ نے بیٹی کی رخصتی میں آنا ہے میں نے معذرت کی کہ مجھے لاہور پہنچنا تھا اور اس نے خوشی سے معذرت قبول کرتے ہوئے کہا کہ آپ لاہو رمیں نماز عصر کے وقت میری بیٹی کیلئے دعا کردیں ۔ آپکی دعا سے آپکی حاضری ہوجائے گی۔ اتوار چار اپریل کی دوپہر مجھے اطلاع ملی کہ ملک بلال کا انتقال ہوگیا اور جو ہال باراتیوں کیلئے سجایا گیا تھا اسی ہال میں ملک بلال کی میت پڑی تھی ۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے کہ ’’انسان اپنی زندگی کے معمولات میں مصروف ہوگا اورا سے علم بھی نہ ہوگا کہ اس کا کفن فروخت کیلئے بازار میں پہنچ چکا ہے‘‘ اور پھر آقائے نامدار حضرت محمد ؐ ( خاتم النبیین) نے صحابہ کرامؓ کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ ’’موت ایسے پلک جھپکنے سے آتی ہے کہ آدمی دائیں طرف سلام پھیر چکا ہوتا اور اسے بائیں طرف سلام پھیرنے کی مہلت نہیں ملتی۔‘‘
ملک بلال سے سینکڑوں ملاقاتیں رہیں مجھے نہیں یاد کہ وہ کبھی اپنے مسائل لے کر آیا ہو اور میں نے انتہائی غربت میں بھی اسے ہنستے دیکھا۔ وہ سوکھی روٹی کھا کر بھی پہلوانوں جیسا جسم رکھتا تھا۔ چوڑی چھاتی، شیر جیسی آنکھ مگر پلک جھپکتے ہی وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔اس کی نماز جنازہ میں اخبار فروش دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے گویا کوئی انتہائی اپنا رخصت ہورہا ہے ۔اخبار فروش قابلِ رحم طبقہ ہے سینکڑوں حکومتیں آئیں اور گئیں ۔دعوے ہوئے مگر غریب کا گھر بھرنے والوں نے اپنے گھر ہی بھرے کسی نے ان کا نہ سوچا۔
ملتان کے اخبار فروشوں سے میرا محبت کا رشتہ ہے اور یہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم ہے کہ اخبار فروش اپنے انتہائی ذاتی مسائل کے حوالے سے میرے ساتھ اکیلے میں اور پردے میں ہر طرح کی مشاورت کرتے اور اپنی بساط کے مطابق جو میں کرسکتا کرتا رہا اور انشآء اللہ کرتا رہوں گا۔اس سے قبل اخبار فروش رہنما شیخ عمر دین دوستوں کو روتا چھوڑ گیا۔ خواجہ رمضان گئے ، افضل پنوں گیااور ایک اخبار فروش تو سوشل میڈیا پر بہت مشہور ہوا جو ایک منٹ میں کروڑوں کا حساب کرکے بتادیتا تھا۔اسے دن تاریخیں اور واقعات ازبر تھے۔لیاقت علی خان شہید ہوئے تو کونسا دن تھا ، بھٹو کو پھانسی کس تاریخ اوردن کو ہوئی، پاکستان کو قائم ہوئے کتنے دن ہوچکے ہیں،کونسی عید کب اور کس دن آئی یہ معلومات اس کی اُنگلیوں پر رقص کرتی تھیں۔اخبار کے ذریعے گھر گھر علم پہنچانے والے ان اخبار فروشوں کا کبھی بھی کسی نے احساس نہیںکیا ۔کبھی کسی نے نہیں سوچا کہ ہمارے گھر میں ہر صبح فجر کی نماز کے ساتھ سالہا سال سے اخبار پھینک کر جانیو الے اخبار فروش کے مسائل کیا ہیں۔کسی نے گھر کے دروازے پر آکر کبھی بھی اس کی خیریت نہیں پوچھی اور نہ کبھی پوچھا کہ اتنے سال سے ہمارے گھر اخبار پھینک رہے ہو کبھی اپنے سارے مسائل تو بتاؤ۔ شاید کسی نے اخبار فروش کو کبھی عیدی دی ہو یا کسی نے اپنے وسائل کا کچھ حصّہ ان کے مسائل کی نذرکیا ہو۔ شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ میں جس وقت رات کے آخری یخ بستہ پہر میں گرم کمبل میں سو رہا ہوتا ہوں ایک ہلکی سی آواز گیٹ کے اُوپر سے کمرے کے دروازے سے ٹکراتی ہے وہ آواز اخبار فروش کی طرف سے پھینکے جانے والی اخبار کی ہوتی ہے ۔ گھر کا مالک اخبار اُٹھاکرتو پڑھنا شروع کردیتا ہے مگر کبھی اس کی خیریت دریافت نہیں کرتا اور سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اخبار فروشوں کا لاکھوں روپیہ ایسے گھروں کی طرف واجب الادا ہوتا ہے جہا ں سکوٹر رائیڈر ، آن لائن احکامات کی روشنی میں لذتِ دہن کیلئے چوبیس گھنٹے مختلف قسم کے کھانے سپلائی کرتے رہتے ہیں ۔