بنگالیوں کا نریندرمودی سے نفرت کااظہار

Apr 11, 2021

شاہد رشید

14اگست 1947ء کو ہمارے آباواجداد کی بیش بہا قربانیوں کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا۔ تحریک پاکستان میں اہل بنگال کا کردار کسی سے پوشیدہ نہیں اور انہوں نے اپنا تن من دھن پاکستان کیلئے قربان کر دیا تھا ۔ 1946ء کے انتخابات میں بنگال کے عوام نے 97فیصد ووٹ دیکر یہاں مسلم لیگ کو فقیدالمثال کامیابی سے ہمکنار کیا۔1947ء کو معرض وجود میں آنیوالا ملک اپنے قیام کے محض24برس بعد ہی دولخت ہو گیا تھا۔ اس سانحہ میں جہاں اغیارکی سازشیں شامل تھیں وہاں اپنوں کی غفلت کا اعتراف نہ کرنا بھی تاریخ سے نا آشنائی کا پیغام دے گا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہماری قومی تاریخ کا دل دوز سانحہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ یہ سانحہ ہمارے سیاستدانوں کی ناکامی ہے تاہم ایسا سوچتے ہوئے ہمیں اپنے ازلی دشمن بھارت کے کردار کو ہرگز نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جس نے مکتی باہنی کے نام سے اپنی باقاعدہ فوج اپریل 1971ء میں ہی مشرقی پاکستان میں داخل کردی تھی جو وہاں پاکستانی فوج کے خلاف گوریلا جنگ میں مصروف رہی۔ 2017ء میں نریندر مودی نے بنگلہ دیش میں ایک تقریب کے دوران برملا اس بات کا اعتراف بھی کیا تھا کہ بھارت کی فوج نے مکتی باہنی کی شکل میں اس جنگ میں حصہ لیا تھا۔ دراصل بھارتی حکمران اکھنڈ بھارت کے علمبردار تھے اور آج بھی ہیں۔ اُنہوں نے پاکستان کی آزادی کو کبھی تسلیم ہی نہیں کیا۔ چنانچہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی وہ اسکے حصے بخرے کرنے کی سازشوں میں مصروف ہو گئے۔ اس سانحہ کے پس پردہ بھارت کی 24برس پر محیط منصوبہ بندی کار فرما تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام کی بہت بڑی اکثریت متحدہ پاکستان کی حامی تھی اور آج بھی مختلف مواقع پر اُنکی پاکستان سے محبت منظر عام پر آتی رہتی ہے۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم کی بھارتی حکمرانوں سے قربت کے برعکس وہاں کے عوام آج بھی بھارت اور اسکے حکمرانوں سے اپنی نفرت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ 
شیخ حسینہ واجد کے دور میں قائم بھارت اور بنگلہ دیش کی مصنوعی دوستی زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے گی ۔ بنگلہ دیشی عوام کی اکثریت آج بھی بھارت کو اپنا نجات دہندہ نہیں بلکہ دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے جس کا وہ وقتاً فوقتاًاظہار بھی کرتے رہتے ہیں ۔ ایک سال قبل شیخ حسینہ کی حکومت نے شیخ مجیب الرحمن کے صد سالہ یوم پیدائش کو منانے کیلئے بڑے پیمانے پر تقریبات کا منصوبہ بنایا تھا جس میں ڈھاکا میں ایک بڑا عوامی جلسہ بھی شامل تھا جہاںبھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو خطاب کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ ’مجیب بورشو‘ (مجیب کا سال) کے نام سے اس تقریب کا آغاز ڈھاکا کے نیشنل پیریڈ گراؤنڈ میں گزشتہ سال 17 مارچ کو ہونا تھا۔تاہم بنگالی عوام کے شدید احتجاج کے بعد بھارتی وزیراعظم کو اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا تھا۔ گزشتہ دنوں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بنگلادیش آمد پر بنگالی بھائیوں نے اس سے اپنی نفرت کا ایک بار پھر بھرپور اظہار کیا۔ بنگلہ دیش کی سڑکوں پر اہل بنگال مودی کی آمد پر سراپا احتجاج تھے۔ نریندر مودی کو بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گولڈن جوبلی تقریبات کے سلسلے میں مدعو کیا تھا۔ ان تقریبات کے دوران اپنے خطاب میں نریندرا مودی نے ایک بار پھر سانحہ سقوط ڈھاکہ میں بھارتی کردار کا کھل کر اعتراف کیا اور کہا کہ میں خود اس جنگ میں شریک ہواتھا۔ نریندرامودی کا یہ اعتراف ایک ایسی فرد جرم ہے جس کا عالمی برادری کو نوٹس لینا چاہئے۔
نریندرامودی کی آمد پر بنگلہ دیش بھر میں بڑے مظاہرے ہوئے اور اس دوران ہنگاموں میں گیارہ افراد اپنی جان سے بھی گئے۔ ان مظاہروں میں لاکھوں افراد شریک ہوئے ۔مظاہرین نے گجرات میں مسلم کش فسادات میں مودی کے مرکزی کردار پر شدید نعرے بازی کی، مظاہرین نے ’’مودی… گجرات کا قصاب‘‘ اور ’’ مودی واپس جائو‘‘ کے بینرز اْٹھا رکھے تھے۔ مودی کے دور حکومت کے دوران مختلف ریاستوں میں گائے کو ذبح کرنے پر پابندی کیخلاف احتجاجاً مظاہرین نے ڈھاکا کے ریڈ زون کی مرکزی شاہراہ پر گائے کو ذبح کر دیا۔ مظاہرین نے بھارت میں مسلمانوں پر ہونیوالے مظالم کے پیش نظر نریندر مودی کے دورے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھاکہ مودی مسلمانوں کا قاتل ہے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش میں کئی نسلوں سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہے اس لیے ہمیں کسی ایسے رہنما کا دورہ قبول نہیں جو شدت پسند اور فرقہ واریت کا پرچار کرنے والا ہو۔ 
واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں اہل کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے لاکھوں افراد پہلے بھی سڑکوںپر نکلے تھے۔ بنگلہ دیش میں بسنے والے مسلمان نریندرمودی کی مسلم کش پالیسیوں سے سخت نالاں ہیں اور اس پر شدید تحفظات کااظہار کر رہے ہیں ۔ بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کو اپنے عوام کی آواز کو سننا چاہئے اور انہیں اپنے والد کا انجام یاد رکھنا چاہئے۔ انکے والد شیخ مجیب الرحمن نے بنگالیوں کو ورغلایا اور خود بابائے قوم بن بیٹھا تھا۔ مجیب الرحمن 15اگست 1975ء کو اپنی ہی فوج کے ہاتھوں مارا گیا اورتین دن تک اس کی لاش اس کے مکان کی سیڑھیوں میں پڑی رہی اور کوئی اسے اٹھانے نہیں آیا۔ شیخ مجیب الرحمن کی ہلاکت پر بنگلہ دیش میں جشن منایا گیا تھا۔شیخ حسینہ واجد ان دنوں بیرون ملک ہونے کی وجہ سے بچ گئی تھیں ورنہ اس انقلاب میں ان کا خاتمہ ہو جانا تھا۔ 
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان بہت سی باتیں مشترک ہیں تاہم ان سب مشترکہ باتوں سے بڑھ کر جو امر دونوں ممالک کے عوام کیلئے آج بھی باعث فخر وانبساط ہے ، وہ ان کا اسلامی نظریاتی تشخص ہے ۔ ان کی جڑیں دین اسلام میں گہری پیوست ہیں اور ان کے اسلاف کفر وشرک کی طاقتوں کیخلاف مصروفِ جہاد رہے ہیں۔ حاجی شریعت اللہ اور تیتومیر نے انگریز سامراج کیخلاف جس پامردی سے جہاد کیا ، وہ ان کی ملی وقومی تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ بالا کوٹ میں سید احمد شہیدؒ جب سکھوں کیخلاف جہاد کر رہے تھے تو ان کا ساتھ دینے کیلئے مشرقی بنگال سے طویل فاصلہ طے کر کے بالاکوٹ پہنچنے والے مجاہدین کا ایثار ، بہادری اور قربانی دونوں ممالک کے عوام کیلئے سرمایۂ افتخار ہے۔ بنگالیوں کی جانب سے نریندر مودی کی آمد پر شدید احتجاج اور مظاہروں کو دوقومی نظریہ کی فتح اس لحاظ سے قرار دیا جا سکتا ہے کہ یہ نظریہ ابھی زندہ ہے جس کے بارے میں بھارتی قیادت نے 1971ء میں کہا تھا کہ ہم نے دوقومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا تھا۔ نظریۂ پاکستان ایک ایسی حقیقت ہے جو پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو باہم جوڑتی ہے اور اسی نظریہ کی بنیاد پر ایک دن گریٹر پاکستان کا قیام بھی عمل میں آئے گا۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب قرارداد لاہور کے مطابق پاکستان کی تکمیل ہو گی۔

مزیدخبریں