سپریم کورٹ نے پنجاب سے بلدیاتی اداروں کو بحال کر دیا ہے ، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں لکھا کہ ’’عوام نے بلدیاتی نمائندوں کو پانچ سال کے لیے منتخب کیا تھا ،ایک نوٹیفکیشن کا سہارا لیکر انہیں گھر بھجوانے کی اجازت نہیں دے سکتے ،آئین کے آرٹیکل 140 کے تحت آپ قانون بنا سکتے ہیں لیکن منتخب ادارے ختم نہیں کر سکتے ، آپ کو کسی نے غلط مشورہ دیا ہے ‘‘ انہوں نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے استفسار کیا کہ بلدیاتی اداروں کو کیوںختم کیا گیاتھا جس پر ایڈیشنل جنرل نے کہا کہ پنجاب میں نئی حکومت آئی تھی اس لئے اصلاحات لانے کے لیے ایسا کیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جو قانون ابھی آیا ہی نہیں اس کی آڑ میں رائج قانون یا نظام کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ؟ واضح رہے کہ پنجاب حکومت نے نیا آرڈیننس لاگو کرتے ہوئے ایکٹ 2019 کے تحت تمام بلدیاتی ادارے افسر شاہی کے حوالے کر دیئے تھے اور نئے بلدیاتی نظام کا واحد مقصد صوبہ پنجاب میں حزب اختلاف کی جماعت ن لیگ کے بلدیاتی سطح پر اکثریتی طور پر موجود اثرو رسوخ اور انتخابی طاقت کو ختم کرنا تھالیکن اس نئے نظام سے غیر سیاسی عناصر اور ٹیکنو کریٹس کو ضرورت سے زیادہ اختیارات حاصل ہوئے ہیں اور یہ نظام خیبر پختونخوا کی طرح پنجاب میں بھی کامیاب نہ ہوسکا اور اب سپریم کورٹ کے حکم کے بعد 58 ہزار سے زائد بلدیاتی نمائندے بحال ہو گئے ہیں ۔کون نہیں جانتا کہ فیلڈ مارشل صدر ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا تھا جس میں کئی امور جرگہ اور پنچایت کے طریقہ کار سے مستعار لیے گئے تھے کہ یونین کونسل اور کمیٹیاں اپنے علاقے کا نیم خود مختار ادارہ تھا اور اسے ترقیاتی کام کروانے کے اختیارات تو حاصل تھے مگر باقاعدہ قانونی طور پر ہر یونین کمیٹی اورکونسل کی مصالحتی عدالت بھی تھی اور ایک الگ قانون کے تحت گلی یا محلے کے معاملات اسی کے ذریعے سے حل ہوتے تھے مصالحتی عدالتوں کی ترجیح مصالحت ہوتی تھی اور گھمبیرتا کی صورت میں مسئلہ عدالت یا کچہری جا تا تھا بلاشبہ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ نظام جب تک چلتا رہا معاشرتی توازن قائم رہا اور پولیس کی مداخلت بھی رک گئی تھی مگر کچھ کرتا دھرتا کو راس نہیں آیا اور اسے انتخابی ادارہ بنا دیا گیا جو بعد ازاں مخالفت کا شکار ہو کر اپنی افادیت کھو بیٹھاپھر بعد میں آنے والے آمر اور سویلین تمام حکمرانوں نے ان اداروں کو حصول مفادات کے لیے کٹھ پتلی ادارے بنا لیااور بلدیاتی نمائندے وڈیرہ شاہی طرز حکومت کے آلہ کار بن کر رہ گئے سوال تو یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کے قیام کا بنیادی مقصد مقامی قیادت کے ذریعے عوامی مسائل کو عوامی سطح پر حکومتی وسائل بروئے کار لاکر حل کرنا تھا تو اس نظام کے تحت قائم ہونے والے اداروں نے عوام کو کتنا فائدہ پہنچایا ہے ؟ان اداروں کے لیے مختص کئے گئے فنڈز کی تفصیلات موجود ہیں مگر کہاں لگے اس کا حساب کس نے دینا اور کس نے لینا ہے ؟ کیا ان نمائندوں کی مدت پانچ برسوں کے حوالے سے ہی رہے گی جس کے ختم ہونے میںصرف سات ماہ باقی ہیںیا اس میں توسیع ہوگی ؟بلدیاتی نمائندوں کی قابلیت میں اچھی شہرت کو مدنظر رکھا جائے گا یا وفاداری کو؟ چونکہ ن لیگ نے بلدیاتی انتخابات کروانے میں ڈھائی سال حیل و حجت سے کام لیا تھا پھر عدالتی حکم پر انتخابات کروائے تھے اور ن لیگ بمقابلہ ن لیگ امیدوران کو میدان میں اتار دیا تھا جن میں بعض جرائم پیشہ افراد کے منتخب ہونے سے بلدیاتی انتخابات کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگ گیا تھا دوسری طرف کٹھ پتلی نمائندے اتنے بے اختیار تھے کہ خود بھی تذبذب کا شکار تھے ؟ چلیں یہ تو ن لیگ کی ڈنگ ٹپائو پالیسیاں تھیں مگر تبدیلی سرکار نے کیانیا کیا ؟کرونا کا سہارا لیتے ہوئے تین برس انتخابات ہی نہیں کروائے حالانکہ ضمنی انتخابات ڈنکے کی چوٹ پر کروائے جبکہ قسمیں اور دعوی ایسا نظام لانے کے تھے کہ دنیا دنگ رہ جائے لیکن دیگر وعدوں کی طرح یہ وعدہ بھی ریت کی دیوار اور دودھ کا اُبال ٹھہرا۔ممکن ہے مذکورہ بحالی سے مسلم لیگ ن کی پوزیشن صوبے میں دوبارہ مستحکم ہو جائے گی۔ شاید اسی خدشے کے پیش نظر وزیراعلیٰ پنجاب متحرک دکھائی دیتے ہیں اور کہا ہے کہ نادان دوست کہتے ہیں کہ پنجاب کو ریورس گئیر لگ گیا ہے حالانکہ ترقی کا نیا دور شروع ہو چکا ہے ۔اب پتہ نہیں ترقی ماپنے کا کونسا پیمانہ ہے جو اتنے بڑے لمحہ فکریہ کے باوجود ترقی کا راگ آلاپا جا رہا ہے!موجودہ سیٹ اپ میںایسی بھول بھلیاں ہیں کہ اچھے بھلے تجزیہ نگار اپ سیٹ ہوچکے ہیں۔ آج کی جمہورتیں بھی ایسی ہی ہیں کہ جمہور کو الو بنا کر اقتدار حاصل کئے جاتے ہیں اور اختیارات ملنے کے بعد جمہور ہی کی درگت بنائی جاتی ہے لہذاوقت کا تقاضا ہے یا تو جمہوریت کو اس کی اصل روح کے ساتھ قائم کیا جائے۔