ایک بزنس مین نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص اسے کہہ رہا ہے کہ تمہاری فیکٹری کے مین گیٹ کے سامنے جو شخص پھل بیچتا ہے اس کو عمرہ کرا دو۔!! وہ نیند سے بیدار ہوا تو اسے خواب اچھی طرح یاد تھا، مگر اس نے وہم سمجھ کر خواب کو نظر انداز کردیا۔ تین دن مسلسل ایک ہی خواب نظر آنے کے بعد وہ شخص قریبی مسجد کے امام صاحب کے پاس پہنچا اور اپنا خواب بیان کیا تو امام صاحب نے کہا۔’’جس شخص کے بارے میں تمہیں بار بارعمرہ کروانے کے بارے میں کہا جارہاہے ،اس سے رابطہ کرو اور اسے عمرہ کروا دو‘‘اگلے روز بزنس مین نے اپنا ایک ملازم اس پھل فروش کے پاس ،اس کا موبائل نمبر معلوم کرنے کو بھیجا۔بزنس مین نے موبائل پرکال کرکے اس پھل فروش سے رابطہ کیا اور کہا کہ:’’ مجھے خواب میں تین بار حکم ملا ہے کہ میں تمہیں عمرہ کروادؤں۔ لہٰذا جلد از جلد میں اس نیک کام کی تکمیل کرنا چاہتا ہوں، یہ بات سن کرپھل فروش زور سے ہنسا اور کہنے لگا:‘‘کیا بات کرتے ہو صاحب...؟ میں نے تو مدت ہوئی کبھی فرض نماز تک ادا نہیں کی اور تم مجھے عمرہ کروانا چاہتے ہو بزنس مین اصرار کرنے لگا اور اسے سمجھایا کہ:'' میرے بھائی! سارا خرچ میرا ہوگا۔ بہرکیف خاصی بحث کے بعدوہ پھل فروش اس شرط پر رضامند ہوا کہ:’’ ٹھیک ہے میں تمہارے ساتھ عمرہ کرونگا، مگر میرے تمام اخراجات تمہارے ذمہ ہونگے ۔ وقتِ مقررہ پر جب وہ ایک دوسرے کو ملے تو بزنس مین نے دیکھا کہ واقعی وہ شکل وصورت سے کوئی اچھا انسان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس کے چہرے سے عیاں تھا کہ وہ نماز بھی کم ہی پڑھتا ہوگا، اسے بڑا تعجب ہوا کہ یہ وہی شخص ہے، جسے عمرہ کرانے کیلئے خواب میں تین مرتبہ حکم دیا گیا ہے۔ بہرحال دونوں افراداکھٹے عمرہ کیلئے روانہ ہو گئے۔ میقات پر پہنچے تو غسل کر کے احرام باندھا اور حرم شریف کی طرف چل پڑے۔انہوں نے بیت اللہ کا طواف کیا۔ مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز ادا کی، صفا مروہ کے درمیان سعی کی۔ اپنے سروں کو منڈوایا ۔اس طرح ان دونوں افراد کا عمرہ مکمل ہو گیا۔اب انہوں نے واپسی کی تیاری شروع کر دی۔جب حرم سے نکلنے لگے تو پھل فروش بزنس مین سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا۔‘‘ صاحب حرم چھوڑنے سے پہلے میں دو رکعت نفل ادا کرنا چاہتا ہوں، نجانے دوبارہ عمرہ کرنانصیب ہو یا نہ ہو ۔’’بزنس مین کو اس پر کیا اعتراض ہوتا ۔اس نے کہا: نفل پڑھو اور بڑے شوق سے پڑھو‘‘۔پھل فروش نے اس کے سامنے نفل ادا کرنے شروع کر دئیے۔ جب سجدہ میں گیا تو اس کا سجدہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا۔!!جب کافی دیر گزرگئی تو بزنس مین نے اسے ہلایا، جب کوئی حرکت نہیں ہوئی تو اسے معلوم ہوا کہ پھل فروش کی روح حالت ِ سجدہ ہی میں پرواز کرچکی ہے۔ پھل فروش کی موت پر بزنس مین کو بڑا رشک آیا اور وہ رو پڑا کہ:'' یہ تو بڑے نصیب کی موت ہے، کاش! ایسی موت میرے نصیب میں بھی ہوتی۔ اس خوش قسمت انسان کو غسل دیا گیا، خانہ کعبہ میں ہی اس کی نماز جنازہ ادا کی گئی، ہزاروں فرزندان توحید نے اس کا جنازہ پڑھا ۔وفات کی اطلاع اسکے گھر والوں کو دی جا چکی تھی، بزنس مین نے اس کے گھر کا تمام خرچہ اپنے ذمہ لے لیا۔پھل فروش کی بیوی سے تعزیت کرنے کے بعد بزنس مین نے پھل فروش کی بیوی سے کہا: میں جاننا چاہتا ہوں کہ تمہارے شوہر کی ایسی کونسی عادت یا نیکی تھی کہ اس کا انجام اس قدر عمدہ ہوا اور اسے حرم ِشریف میں سجدہ کی حالت میں موت آئی؟ ''بیوی نے کہا: '' بھائی! میرا خاوند کوئی نیک آدمی تو تھا نہیں ۔ ''میں اسکی کوئی خاص خوبی بیان تو نہیں کر سکتی، ہاں.! مگر اس کی ایک عادت ضرور تھی کہ وہ ہمارے ہمسایہ میں ایک غریب بیوہ عورت اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی ہے۔!!میرا شوہر روزانہ بازار جاتا تو جو چیز اپنے بچوں کے کھانے پینے کے لئے لاتا وہی چیز اس بیوہ اور اس کے یتیم بچوں کیلئے بھی لے آتا، اور اس کے دروازے پر رکھ کر اسے آواز دیتا ۔’’ اے بہن! میں نے کھانا باہر رکھ دیا ہے، اْسے اٹھا لو‘‘ وہ بیوہ عورت کھانا اٹھاتی اور آسمان کی جانب سر اٹھا کر دیکھتی اور کہتی:’’اے اللہ رب العزت! آج پھر اس نے میرے بھوکے بچوں کو کھانا کھلایا... اے اللہ رب العزت! اس کا خاتمہ ایمان پر فرما‘‘۔ میری نظر میںیہ سبق ہم سب کے لیے ہے ۔زندگی تو جیسے تیسے بہرحال گزر ہی جاتی ہے، لیکن جس قدر ممکن ہو، مستحق اور غریب لوگوں کی مدد کتنی چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر طرح کی برائیوں سے محفوظ ر کھے اور ہمارا خاتمہ بھی ایمان پر فرمائے ، امین ثم امین۔
ایمان افروز واقعہ
Apr 11, 2022