سابق وزیر اعظم عمران خان نے تین روز قبل اپنی تقریر کے دوران کم از کم تین مرتبہ بھارتی جمہوریت کی تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے ہندوستان کو ایک مثالی معاشرہ قرار دیا۔ غیر جانبدار مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم کی جانب سے کشمیری قوم کے زخموں پر جس طرح نمک چھڑکا گیا اسے دیکھ کر یہ لگتا ہی نہیں کہ یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جو کل تک آر ایس ایس اور مودی کے مظالم بیان کرتا نہیں تھکتا تھا اور آر ایس ایس جیسے مافیا کو ہٹلر سے تشبیہ دینے میں ذرا بھی تامل محسوس نہیں کرتا تھا۔ مگر چند ہی روز میں حالات نے جانے کیسا پلٹا کھایا کہ وہ بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے گن گانے لگ گئے اور بھارت کی ایسی ایسی تعرفیں بیان کیں جن پر خود بھارتی میڈیا حیران بھی ہے اور کسی قدر پریشان بھی۔
اسی پس منظر میں یہ بات اہم ہے کہ انتہائی محتاط اندازے کے مطابق 1989 سے لے کر 31 مارچ 2022 تک 95.995نہتے کشمیری بھارت کی سفاکی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔زیر حراست ہلاک ہونے والوں کی تعداد 7,232ہے جبکہ 11,254با عصمت خواتین کے ساتھ اجتماعی بے حرمتی کے واقعات پیش آئے۔ 164,626نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو گرفتار کیا گیاجبکہ 107,860بچوں کے سر سے باپ کا سایہ چھین لیا گیا۔بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے نتیجے میں 110,463عمارتوں اور مکانات کو مسمار کر دیا یا جلا دیا گیا۔
ایک جانب ملک کی آئینی اور پارلیمانی تاریخ کے اہم ترین کیس کا فیصلہ سامنے آچکاہے۔یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پانچ روز مقدمہ کی سماعت کرکے ازخود نوٹس کیس کا مختصر فیصلہ سنایا تھا۔پانچ رکنی لارجر بنچ نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ کو کالعدم قرار دیا جبکہ وزیر اعظم کی قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش اور صدر مملکت کے اسمبلی تحلیل کرنے کے حکم کو بھی غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسے تین اپریل کی پوزیشن میں بحال کر دیاتھا۔ اس کے بعد حالات و واقعات اتنی سورت سے آگے بڑھے کہ اب نہ صرف ’کپتان ‘سابق ہو چکے ہیں بلکہ ممکنہ طور پر 11اپریل کو شہباز شریف وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہو چکے ہوں گے۔
دوسری طرف اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اس فیصلے کے ذریعے اس عمومی تاثر کو بھی ختم کیا ہے جو اس کے بارے میں عوام و خواص میں نظریہ ضرورت کے حوالے سے قائم ہو چکا تھا، اس فیصلے سے عدلیہ پر لگے ماضی کے بعض داغ دھل گئے ہیں اور اس کا ایک روشن چہرہ قوم کے سامنے آ گیا ہے۔ اس فیصلے نے نظریہ ضرورت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے جسے اس لحاظ سے بھی خوش آئند قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس سے بانیانِ پاکستان حضرت علامہ اقبال اور حضرت قائدِ اعظم محمد علی جناح کے آئین و قانون کی پاسداری کے تصور کو یقینی بنایا گیا ہے۔ مذکورہ فیصلہ آنے کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف اور ا سکی مخالف سیاسی جماعتوں سمیت تمام قائدین پر لازم ہے کہ وہ اس فیصلے کی روشنی میں مستقبل کے لیے بہتر لائحہ عمل مرتب کریں اور گروہی اور جماعتی سمیت ہر نوع کے تعصب سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں اپنے اپنے اہداف کے حصول کے لیے یکسو ہو جائیں۔ امورِ مملکت کی انجام دہی میں حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔ سیاسی، معاشی اور سماجی زندگی کی گاڑی کو پھر سے رواں دواں کرتے ہوئے منزل کی طرف پیش قدمی کی جائے۔ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر انتخابی اصلاحات لائیں، انتخابی نتائج کی شفافیت میں حائل رکاوٹوں اور مشکلات کو دور کیا جائے اور ایسا صاف ستھرا ماحول پیدا کیا جائے کہ جہاں صرف رواداری، برداشت کا دور دورہ ہو۔
راقم کی رائے میں یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں کہ 1992کا ورلڈکپ جیت کر بلاشہ عمران خان شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئے تھے اور انہوں نے تحریک انصاف کے نام سے نئی جماعت بنا ئی تھی مگر 1997کے عام انتخابات میں انہیں قومی اسمبلی کی ایک نشست بھی نہ مل پائی اور کچھ ایسا ہی 2002کا انتخابی نتیجہ سامنے آیا جب انہیں محض ایک دو سیٹوں پر کامیابی ملی۔حالانکہ اسی دوران وہ شوکت خانم ہسپتال قائم کر چکے تھے محض یوںکر کٹ یا فلاحی منصوبوں کی وجہ سے اگر ان کی سیاست کو عروج ملنا ہوتا تو ایسے کافی پہلے ہو چکا ہوتا۔
لیکن پھر 30اکتوبر 2011لاہور میں ان کا تاریخی جلسہ منعقد ہو ا جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور یوں کامیابیاں اُن کا مقدر بنتی چلی گئیں ۔اکثر حلقوں کی رائے ہے کہ موصوف کی کامیابیوں کے پس پردہ عوامل کچھ اور بھی تھے شائد اسی وجہ سے وہ خوش فہمیوں کا شکار ہو تے چلے گئے اور انہوں نے قومی سلامتی کے اداروں کو ہی اپنے نشانے پر رکھ لیا مگر حالیہ عدالتی فیصلے سے واضح ہو گیا کہ اعلیٰ عدلیہ ،ریاستی اداروں، سول سوسائٹی اور تمام معاشرے نے نظریہ ضرورت کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیا ہے ۔ایسے میں یہی دعا کی جاسکتی ہے کہ
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو