اسلام آباد (نامہ نگار+نوائے وقت رپورٹ) سابق صدر آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کو اپوزیشن سے غیر مشروط مذاکرات کا مشورہ دے دیا۔ آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی کے حوالے سے قومی اسمبلی کے خصوصی اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے آصف علی زرداری کا کہنا تھا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ کورٹ نے نوٹس بھیجا، میرے خلاف سوموٹو نوٹس ہوئے میں نے دیکھے ہیں، ہمارے خلاف پہلے بھی انٹریز ہوتی رہی ہیں، جب بینظیر بھٹو شہید ہوئیں تو ہم نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، رات 12 بجے ہسپتال سے اٹھا کر جیل میں ڈالا گیا اس وقت کسی نے سوموٹو نہیں لیا۔ ان کا کہنا تھا ٹی ٹی پی کی تھریٹس مجھے بھی تھیں لیکن جہاں لوگ بلائیں گے جائیں گے پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ ہم تو بلوچستان بھی جائیں گے اور کے پی بھی جائیں گے، ہم پاکستان کو بچاتے آئے ہیں، اب بھی بچائیں گے۔ جب تک دم میں دم ہے جمہوریت کے لئے لڑتے رہیں گے۔ سابق صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا ڈائیلاگ کی اتھارٹی وزیراعظم کے پاس ہے لیکن شہباز شریف سے درخواست کروں گا کہ اپوزیشن سے مذاکرات کریں اور مذاکرات میں آنے سے پہلے شرائط نہ رکھی جائیں۔ اپوزیشن کو بھی مذاکرات کے لیے شہباز شریف کے پاس آنا ہو گا کیونکہ یہ وزیراعظم ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جاپان دیوالیہ ہوا، کوریا دیوالیہ ہوا، انڈیا ہم سے 10 گنا بڑا ملک ہے، ان کے پاس ایک زمانے میں ایک بلین ڈالر کے ریزرو تھے لیکن بھارت کو اپنا سونا سوئٹزرلینڈ بھیجنا پڑا، پاکستان اٹھے گا اور ہم اسے اٹھائیں گے۔ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ملک میں سلیکٹڈ آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیراعظم لانے کا منصوبہ تھا۔ بلاول بھٹو نے قومی اسمبلی میں دستور کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آمر نے کچھ جعلی سیاستدان اور کٹھ پتلیاں کھڑی کیے، غیر جمہوری قوتیں چاہتی ہیں نالائق اور سلیکٹڈ دوبارہ قوم پر مسلط ہو، اٹھارویں ترمیم واپس ہو، ون یونٹ قائم ہو اور سلیکٹڈ راج چلے، تباہی کا سفر ایک مرتبہ پھر چلے، وہ نہیں چاہتے کہ یہ حکومتی اتحاد کامیاب ہو۔ ہمارا وزیراعظم شہباز شریف، شریف آدمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سلیکٹڈ وزیراعظم کو نکالنے کا یہ مطلب نہیں کہ سازش ختم ہو گئی، آئین پاکستان اور عدلیہ کے ساتھ کھیل کھیلا جا رہا ہے جو ایک بڑے 10 سالہ گیم پلان کا حصہ ہے، اداروں میں اب بھی وہ لوگ موجود ہیں جو نہیں چاہتے حکومتی اتحاد کامیاب ہو، وہ چاہتے ہیں سلیکٹڈ دوبارہ مسلط ہوجائے، جس طرح حکومت ایک آدمی کو دلوانی تھی، اسی طرح سپریم کورٹ میں بھی ایسی ہی سازش ہورہی تھی، کسی نہ کسی طریقے سے آئین کا ساتھ دینے والے جج کو نکال دیا جائے اور کچھ ججز کو توسیع دلائی جائے۔ بلاول کا کہنا تھا کہ اس سازش میں شریک لوگ آج بھی اعلیٰ عدلیہ میں موجود ہیں، ہم نے اس سازش کو بھی ناکام بنایا، اسی طرح فوج میں بھی ایک سازش تھی کہ میرٹ کا قتل کرتے ہوئے کسی کو اس ادارے پر بھی 10 سال کےلئے مسلط کرنا تھا، اس دس سالہ پلان کے نتیجے میں ایک سلیکٹڈ وزیراعظم ، ایک سلیکٹڈ آرمی چیف اور ایک سلیکٹڈ چیف جسٹس لاکر ایک سلیکٹڈ مارشل لا قائم کرنا تھا اور یہی اصل ڈاکٹرائن تھی، تاکہ ملک میں آمریت نافذ کی جائے اور دنیا کو سلیکٹڈ جمہوریت دکھائی جائے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ جب ہم نے عدم اعتماد کامیاب کرلی تو ہم سمجھے سازش ختم ہوگئی لیکن ایسا نہیں تھا، سازش تو آج بھی جاری ہے، جسے ہم نے ملکر ناکام بنانا ہے، اس وقت یہ کھیل پارلیمنٹ اور فوج میں تو نہیں ہورہا جس نے کہا ہم نیوٹرل ہیں لیکن ایک ادارے میں یہ کھیل اب بھی جاری ہے، لہٰذا آج سیاستدانوں کے ساتھ عدلیہ پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ادارے کا وقار برقرار رکھیں، آج عدلیہ دوراہے پر کھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اگر ایک آدمی کی آمریت اور ون مین شو چلے گا تو پھر آنے والے بحران کو کوئی نہیں سنبھال سکے گا، ایک چیف جسٹس اور چند ججز اپنی اقلیت کو اکثریت ثابت کرنا چاہتے ہیں، دو جمع دو چار ہوتے ہیں لیکن ایک چیف جسٹس اور اس کے ساتھ کچھ ججز پاکستانی عوام کو کہہ رہے ہیں کہ دو جمع دو تین ہوتے ہیں، اس قسم کا مذاق پاکستان کے آئین اور عدلیہ کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ ملک میں آئینی و جمہوری بحران ہے جس سے نکلنے کا واحد حل مذاکرات ہے۔