زکوۃ اسلامی نظام کا ایک بنیادی رکن

ذیشان کلیم معصومی
zeeshanmasoomi@yahoo.com
 ارکان اسلام میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن زکوۃ ہے قرآن پاک میں بیاسی مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور زکوۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ صلوۃ اور نظام زکوۃٰ کا قیام اسلام کے بنیادی مقاصد میںسے ہے جس سے انسان کی روحانی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے ، دوسر ا اس سے مادی ضرورتوں کیلئے  کفالت کی ضمانت میسر آتی ہے۔ ایک اسلامی معاشرہ افراد کی روحانی اور مادی تقاضوں کی تکمیل کے بعد ہی جنم لیتا ہے جس کے نتیجے میں نیکیوں اور اچھائیوں کو فروغ ملتا ہے اور اس کے اندر پائی جانے والی برائیوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ اس کے مختلف مقامات پر بڑے شرح و بسط اور شد ومد کے ساتھ انفاق فی سبیل اللہ کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ جگہ جگہ اہل ایمان کو یہ کہہ کر جھنجھوڑتا ہے کہ اس مال میں سے میری راہ میں خرچ کرو جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے مما رزقنکم کے الفاظ غور طلب ہیں کہ انسان بسا اوقات یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس کا مال اور اس کی کمائی اس کی ذاتی محنت و کاوش اور استعداد و قابلیت کا نتیجہ ہے اس کا یہ زعم باطل اور اس کایہ دعویٰ خام ہے اس لئے کہ انسان کے پاس جو کچھ بھی مال ومتاع ہے اس کے رب کی عطا اور فضل سے ہے جس سے اس کو کسی بھی لمحہ وہ اگر چاہے تو محروم کر سکتا ہے یعنی مالک حقیقی اللہ کی ذات حق ہی ہے زکوۃٰ ہر مسلمان ،عاقل،بالغ،آزاد اور صاحب نصاب شخض پر واجب ہے۔ زکوۃ کے فرض ہونے کی شریعت میں یہ شرائط اور یہ نصاب بتایا ہے کہ جب نصاب پورا ہونے کے بعد اس پر ایک سال گزر جائے سونے کا نصاب ساڑھے سات تولے اور چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے ہے سونا چاندی میں چالیسواں حصہ نکال کر بطور زکوۃادا کرنا فرض ہے یہ ضروری نہیں کہ سونا چاندی کی زکوۃ میں چاندی ہی دی جائے بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ بازار کے بھائو کے مطابق سونے چاندی کی قیمت لگا کر روپیہ پیسہ زکوۃٰ میں دیں ۔اگر کسی کے پاس تھوڑی چاندی اور تھوڑا سونا ہے اور سونا چاندی میں سے کوئی بھی الگ سے بقدر نصاب نہیں تو ایسی صورت میں دونوں کو ملا کر ان کی مجموعی قیمت نکالی جائے گی اور جس نصاب (سونا چاندی)کو بھی وہ پہنچے اس پر زکوۃ واجب ہے جس زیور کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دے کر ان کا مالک بنایا ہو تو ان زیورات کی زکوۃ عورت پر فرض ہے اور جن زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کے لئے دیا گیا ہے مالک نہیں بنایا گیا تو ان زیورات کی زکوۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں تجارتی مال اور سامان کی قیمت لگائی جائے گی اس سے اگر سونا یا چاندی کا نصاب پورا ہو تو اس کے حساب سے زکوۃ نکالی جائے گی اگر سونا چاندی نہ ہو نہ مال تجارت ہو بلکہ صرف نوٹ اور روپے ہوں تو کم سے کم اتنے روپے پیسے اور نوٹ ہوں کہ بازار میں ان سے ساڑھے سات تولہ سونا اور ساڑھے باون تولے چاندی خریدی جاسکے  تو وہ صاحب نصاب ہے اور اس شخض کو نوٹ اور روپے پیسوں کی زکوۃ کل چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے اور اگر شروع سال میں نصاب پورا تھا اور آخر سال میں بھی نصاب پورا رہا درمیا ن سال میں کچھ دنوں مال گھٹ کر نصاب سے کم رہ گیا تو یہ کمی کچھ اثر نہ کرے گی بلکہ اس شخض کو پورے مال کی زکوۃ دینا پڑے گی روپے پیسوں کی زکوۃ میں روپے پیسے ہی دینا ضروری نہیں بلکہ جتنے روپے زکوۃ کے نکلتے ہیں اگر ان کا غلہ یا کپڑا یا کتابیں یا کوئی اور سامان خرید کر مستحق زکوۃ کو دے تو بھی زکوۃ ادا ہو جائے گی اور اب آپ کو یہ بھی بتاتا جائوں کہ اسلام میں کون کون مستحق زکوۃ ہے اس بارے فرمایا گیا کہ فقیر یعنی وہ شخض کہ جس کے پاس کچھ مال ہے مگر نصاب سے کم ہے ۲۔مسکین یعنی وہ شخض جس کے پاس کھانے کے لئے غلہ اور پہننے کے لئے کپڑا بھی نہ ہو۳۔قرض دار یعنی وہ شخض کہ جس کے ذمہ قرض ہو اور اس کے پاس قرض سے فاضل کوئی مال بقدر نصاب نہ ہو ۴۔مسافر جس کے پاس سفر کی حالت میں مال نہ ہو اس کو بقدر ضرورت زکوۃ کا مال دینا جائز ہے ۵۔عامل یعنی جس کو بادشاہ اسلام نے زکوۃ و عشر وصول کرنے کے لئے مقرر کیا ہو ۶۔مکاتب غلام تاکہ وہ مال دے کر آزاد ہو جائے ۷۔غریب مجاہد تاکہ وہ جہاد کا سامان کرے نیز کرایہ پر اٹھانے کے لئے ویگنیں ،موٹریں،بسیں،ٹرک اسی طرح دیگیں،دریاں،گدے،کرسیاں ،میزیں،پلنگ،مسہریاں یا کرایہ پر اٹھانے کے لئے مکانات اور دوکانوں پر زکوۃ واجب نہیں اگرچہ وہ ہزاروں روپے کی مالیت کے ہوں البتہ ان سے جو آمدنی ہو گی اگر وہ بقدر نصاب ہو اور اس پر سال گزر جائے تو پھر اس پر زکوۃ واجب ہوگی زکوۃ و صدقات میں افضل یہ ہے کہ پہلے اپنے بہن بھائیوں کو دے پھر ان کی اولاد کو پھر چچائوں اور پھوپھیوں کو،پھر ان کی اولاد کو پھر ماموئوں اور خالائوں کو پھر ان کی اولاد کو پھر دوسرے رشتہ داروں کو پھر پڑوسیوں کو پھر اپنے پیشہ والوں کو پھر اپنے گائوں والوں کو اور شہر والوں کو زکوۃ سے انکار نص قطعی کے مطابق صریحا کفر و بغاوت اور دائرہ اسلام سے اخراج کے مترادف ہے امیر المومنین جانشین رسول خلیفہ ائول حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اسلامی تا ریخ کے نازک ترین لمحے میں جن مملکت اسلامیہ چاروں طرف سے گوناگوں آزمائشوں اور فتنوں سے دوچار تھی منکرین زکوۃ کے خلاف اعلانیہ آپ نے جہاد کیا اور نبوت کے جھوٹے دعویداروں کے ساتھ ان تمام باغیوں کا بھی قلع قمع کر دیا جنہوں نے صرف زکوۃ سے انکار کیا تھا اس سے یہ بات بغیر کسی ابہام کے نکھر کے سامنے آتی ہے کہ اسلامی نظام میں زکوۃ کی ادائیگی ایک ایسے بنیادی رکن اور فریضے کا حکم رکھتی ہے جس سے انکار صریحا ًبغاوت متصور ہوتی ہے اور ایسا کرنے والوں کے خلاف اسلامی حکومت کے ارباب اقتدار کے لئے جہاد کرنا فرض ہو جاتا ہے زکوۃ اسلام کے اقتصادی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ایتائے زکوۃ کے حکم کے پیچھے یہ فلسفہ کار فرماہے کہ اسلامی حکومت پورے معاشرے کو ایسا اقتصادی و معاشی نظام طرز زندگی اور سماجی ڈھانچہ مہیا کرے جس سے حرام کمائی کے راستے مسدود ہو جائیں او ر رزق حلال کے دروازے کھلتے چلے جائیں اس لئے شریعت مطہرہ نے ہر صاحب نصاب پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ وہ سالانہ بنیادوں پر اپنے جمع شدہ اموال پر اڑھائی فی صد کے حساب سے مال نکال کر اجتماعی طور پر حکومت کے بیت المال میں جمع کروادے تاکہ وہ اسے معاشرے کے نادہندہ اور محتاج افراد کی ضروریات کے لئے ان پر صرف کر سکیں اس شرح سے اگر سب اہل ثروت اور متمول افراد اپنے سال بھر کے اندوختہ و زرمال سے اپنا اپنا حصہ نکالتے رہیں تو اس طرح نہ صرف ان کی کمائی حلال اور ان کا مال و متاع آلائشوں سے پاک و صاف ہو جائے گا بلکہ معاشرے میں پائی جانے والی معاشی ناہمواریاں بھی ازخود دور ہوتی رہیں گی اگر یہ سوچ افراد معاشرہ کے قلوب و اذہان میں جا گزیں ہو جائے تو پوری زندگی میں حلال و حرام کی حدیں متعین ہو جائیں گی اور اجتماعی حیات کے احوال و معاملات سنور جائیں گے ۔

ای پیپر دی نیشن