پاکستان پر جمہوری آزادی کے لئے دبا ؤ ڈالا جائے‘ امریکی رکن کانگریس
جب سے پی ٹی آئی کے چیئرمین نے امریکہ کو اپنی حکومت گرانے کی سازش سے بری الذمہ قرار دیا ہے۔ اس کے بعد سے تو لگتا ہے امریکی ارکان کانگریس کے دل میں ایک بار پھر جمہوریت کا درد اٹھنے لگا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں اس وقت جمہوری نظام ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ مگر نجانے کیونکہ امریکی کانگریس کے کچھ ارکان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی اور اظہار رائے کی آزادی نہیں۔ حالانکہ دونوں حوالوں سے جتنی آزادی پاکستانیوں کو حاصل ہے اتنی تو خود امریکہ میں کسی شہری یا سیاستدان کو حاصل نہیں۔ ذرا کوئی امریکی مائی کا لال اپنی سلامتی کے اداروں یا ایک دوسرے کے خلاف وہ زبان استعمال کرے جو ہمارے ہاں ہو رہی ہے۔ پھر دیکھتے ہیں وہ آزاد معاشرے کا باشندہ کس طرح قانون کی آہنی گرفت سے بچ کر ناچتا نظر آتا ہے۔
اظہار رائے اور جمہوری نظام کی بدولت ہی ہمارے معاشرے میں ہر وقت ایک دوسرے کو مطعون کیا جاتا ہے۔ اہم حساس اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔ ایسا کرنے سے صرف ہمارے دشمن خوش ہوتے ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے امریکہ میں خواہ ڈیموکریٹک ہوں یا ری پبلکن‘ دونوں کے دور حکومت میں جب آمریت کا بول بالا اور جمہوریت کا منہ کالا ہو رہا ہوتا ہے‘ تب کسی رکن کانگریس کو کوئی تشویش نہیں ہوتی۔ ہر امریکی حکومت ان کے ساتھ نہایت خوشگوار اور اچھے تعلقات رکھتی ہے۔ لگتا ہے امریکہ میں پی ٹی آئی کی بھاری معاوضوں پر حاصل کی گئی لابنگ فرمیں نہایت ایمانداری سے کام کر رہی ہیں۔ اگر باقی جماعتیں بھی اسی طرح ذرا جیبیں ڈھیلی کریں تو بہت فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ مگر یاد رکھیں ایسا کرتے ہوئے بیرون ملک وطن عزیز کی بدنامی اور سبکی سے گریز کیا جائے۔ حکومتوں کے خلاف جی بھر بولیں‘ دل کی بھڑاس نکالیں مگر ملک کو کرپٹ کہہ کر بدنام کرنے سے پرہیز کیا جائے۔ اولاد کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو‘ اسے ماں باپ کو گالیاں دینے‘ ان کے خلاف بد زبانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
٭٭٭٭٭
چینی کی افغانستان سمگلنگ کی تحقیقات شروع
کوئی ایک آدھ ٹن کی بات ہوتی تو ہم پرواہ ہی نہیں کرتے ۔ کیونکہ ہم ٹھہرے بے فکر لوگ۔ مگر یہ جو 4 لاکھ ٹن چینی افغانستان سمگل ہو کر گئی ہے۔ اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرنا بہت مشکل ہو رہا ہے۔ چند دنوں میں چینی کی قیمت 20 سے 30 روپے فی کلو اضافے نے جس طرح چینی کی مٹھاس میں کڑواہٹ گھول دی ہے۔ اس کے ذمہ دار خواہ سمگلر ہوں یا مل مالکان یا سمگلنگ میں سہولت کار بنے والے عناصر‘ ان سب کو اب لٹکانا ہی پڑے گا کیونکہ عوام بہت دیر سے مہنگائی کی صلیپ پر لٹکے ہوئے ہیں۔ اب ان کو بہرحال تھوڑا بہت ریلیف ملنا چاہئے۔ خودکشی ویسے بھی حرام ہے۔ اس لئے حکومت کا فرض ہے کہ اپنے معصوم بے گناہ شہری کو حرام موت مرنے سے بچائے ورنہ موجودہ صورتحال میں کہیں خود حکمرانوں کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ افغانستان کی طویل سرحد ہمارے دو صوبوں بلوچستان اور خیبر پی کے کے ساتھ ملتی ہے‘ جہاں سے دہشت گردوں کی آمدورفت روکنے کیلئے کافی عرصہ سے سخت اقدامات کئے گئے ہیں۔ سمگلنگ بھی زیادہ تر افغانستان کے راستے سے ہوتی ہے‘ اس لئے چیکنگ بھی سخت ہے۔ مگر دیکھ لیں‘ اب باڑ بھی لگائی جا چکی ہے۔ مگر سمگلنگ کا دھندا جاری ہے۔
خود افغانستان میں تو سمگلروں کے لئے موت کی سزا تجویز ہے مگر وہاں سے آئے روز اسلحہ‘ منشیات اور دہشت گردوں کی ہمارے ہاں آمدورفت جاری ہے۔ وہاں تو چلیں افراتفری ہے۔ مگر ہمارے ہاں جن سرحدی علاقوں سے یہ مکروہ دھندا جاری ہے وہاں ان چینی اور آٹے کے سمگلروں پر کڑا ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جا رہا۔یہ سب ایک سال میں نہیں ہوا‘ چند دنوں میں 4 لاکھ ٹن افغانستان سمگل ہونے سے ہمارے شوگر ملز مالکان کو 115 ارب روپے کا منافع ہوا ہے۔ اس ہوشربا رپورٹ کے بعد کیا حکمران اب بھی کبوتر کی طرح آنکھیں بند کئے بیٹھے رہیں گے یا سخت ایکشن لیں گے۔ یہ چینی اور آٹا ٹرالروں اور ٹرکوں میں ہی نہیں‘ باربرداری کے جانوروں پر بھی لوڈ کر کے افغانستان جا رہی ہے۔ حکومت اور سرحدی محافظوں کو چاہئے کہ وہ چند سکوں کی خاطر 22 کروڑ افراد کی خوشیوں سے نہ کھیلیں اور اس مکروہ کاروبار کو بندکروایں۔
٭٭٭٭٭
پاکستان میں روزانہ 1200 لڑکے اور لڑکیاں سگریٹ نوشی میں مبتلا ہونے لگے
کسی ز مانے میں فیشن کے طور پر سگریٹ پینے کا رجحان عام تھا۔ پھر جوان نظر آنے کیلئے لڑکوں نے یہ شغل اپنایا۔ اب آہستہ آہستہ یہ بری عادت ہمارے ملک بری طرح پھیل رہی ہے۔ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ میڈیا پر چاہے وہ پرنٹڈ ہو یا الیکٹرانک سگریٹ کے اشتہارات نہیں دیئے جا رہے ورنہ نجانے کیا قیامت برپا ہوتی۔ اس کے باوجود سالانہ اربوں روپے کے سگریٹ پھونکے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ بھیک مانگنے والے بھی انگلیوں میں سگریٹ لے کر یوں دھوئیں کے مرغولے بناتے نظر آتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ جن کو روٹیوں کے لالے پڑے ہوتے ہیں وہ کہاں سے سگریٹ کے لئے پیسے لاتے ہوں گے۔ دیکھ لیں سگریٹ کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود اس کے چاہنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کچھ لوگ شوقیہ‘ کچھ فیشن اور کچھ ذہنی دبا ؤ کی وجہ سے سگریٹ پیتیہیں۔ وجہ جو بھی ہو یہ ایک نقصان دہ چیز ہے جو انسانی جسم میں طرح طرح کی خطرناک بیماریاں پیدا کرتی ہے۔
ہمارے ہاں جس تیزی سے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس بد عادت میں مبتلا ہو رہے ہیں وہ افسوسناک ہے۔ ان میں سکول اور کالجز کے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد بتا رہی ہے کہ یہ بچے گھر سے باہر کے اوقات میں اپنا یہ شوق پورا کرتے ہیں کیونکہ گھر میں کسی لڑکے اور لڑکی کی ہمت نہیں کہ وہ سگریٹ سلگا کر والدین کے جوتے کی زد سے بچ سکے۔ قانون تو ہے کہ کم عمر بچوں کو سگریٹ خریدنے کی اجازت نہیں مگر ہمارے ہاں قانون کی پابندی کا مطلب یہ لیا جاتا ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اگر اس قانون پر ہی سختی سے عمل ہو تو کم از کم کم عمر نوجوانوں کی سگریٹ تک رسائی ختم ہونے سے بہت اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر روزانہ 1200 نوجوان اس لت میں مبتلا ہو رہے ہیں تو نہایت بلند شرح ہے۔ اس کی وجہ سے بیماریوں اور ہلاکتوں کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی بہت ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭