عمران خان کی ساکھ

پاکستان میں رجیم چینج کو پورا ایک سال بیت گیا۔ سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اس ایک سال میں کئی بار یوٹرن لیے۔ اپنے موقف سے ہٹے، اپنی رائے تبدیل کی اور جس بنیاد پر انھوں نے حکومت مخالف تحریک کی بنیاد رکھی، اس بنیاد کو ہی منہدم کر ڈالا۔ گزشتہ روز عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کی ’برسی‘ مناتے ہوئے امریکا بہادر کو کلین چٹ دیدی۔ فرماتے ہیں کہ اس رجیم چینج میں امریکا ملوث نہیں تھا بلکہ جنرل باجوہ نے ایکسٹینشن لینے اور شہباز شریف کو اقتدار میں لانے کے لیے ان کی حکومت گرائی۔
 مزید کہتے ہیں کہ باجوہ نے ہی امریکا میں حسین حقانی کو ہائر کیا تھا کہ وہ امریکیوں کو یہ باور کروا سکے کہ عمران خان امریکا مخالف اور جنرل باجوہ امریکا کا حامی ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے سربراہ نے بھی انھیں بتایا تھا کہ باجوہ آپ کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ حیرت ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ایک ملک کے سربراہ کو تو پتا چل گیا کہ پاکستان میں سازش ہو رہی ہے لیکن یہاں عمران خان کو پتا نہیں چلا۔
بعض مبصرین کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو امریکا کی جانب سے ہی یہ ہدف دیا گیا تھا کہ فوج پر تنقید کریں اور فوج کی ساکھ خراب کریں۔ شاید عمران خان کو بھی علم نہ ہو کہ یہ ہدف کس کی جانب سے دیا گیا لیکن وہ اس پر کاربند ہو گئے اور ابھی تک تحریک انصاف مسلسل جنرل باجوہ کو لتاڑ رہی ہے۔ لتاڑنا بنتا بھی ہے مگر اس کی آڑ میں پاک فوج کی ساکھ خراب کرنا کہاں کی دانش مندی ہے؟ مریم نواز عدلیہ کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں اور پی ٹی آئی فوج کو۔ یوں پاکستان میں اداروں کا تقدس پامال کرکے ملک میں خانہ جنگی کی فضا پیدا کی جا رہی ہے جو پاکستان کے خلاف ایک منظم سازش ہے۔ اس سازش کے تانے بانے بھی واشنگٹن میں جا ملتے ہیں۔ کسی بھی میدان میں یہ بات سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے کہ آپ کتنے دشمن شناس ہیں۔ اگر آپ دشمن شناس نہیں ہیں تو پھر آپ کو قدم قدم پر ٹھوکریں ہی ملیں گی۔
اقتدار کی خواہش میں عمران خان اب کبوتر بن کر آنکھیں موند رہے ہیں کہ امریکا نہیں تھا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک امریکی وفد نے عمران خان سے زمان پارک میں ملاقات کی تھی۔ وہ وفد عمران خان سے ملنے کے بعد میرے ایک دوست کی رہائش پر چائے پینے پہنچا تو وہاں میرے اس دوست نے امریکیوں سے پوچھا کہ عمران خان کے ساتھ ملاقات کیسی رہی، جس پر امریکی وفد کے ارکان کا کہنا تھا کہ عمران خان تو اقتدار کے لیے لیٹ گیا ہے، معافیاں مانگ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ مجھے ایک بار اقتدار دیدیں، میں امریکہ مخالف بیانیے سے یوٹرن کے لیے تیار ہوں۔
 اور آج امریکی وفد کی یہ بات درست ثابت ہو گئی کہ عمران خان نے واقعی امریکا مخالف بیانیے سے یوٹرن لے لیا لیکن امریکیوں کی نفسیات یہ ہے کہ جس کے حوالے سے ان کے دل میں کھٹاس آ جائے، دوبارہ اس کے لیے پہلے جیسا مقام نہیں رہتا، اب عمران خان امریکیوں کی نظروں سے گر چکے ہیں۔
عمران خان اب اگر اپنی ساکھ بچانا چاہتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اپنے عوام کی نظروں سے نہ گریں۔ امریکی خوشنودی کے لیے عمران خان نے جو پالیسی اختیار کی ہے اس سے یہ اپنے عوام کی نظروں میں گر جائیں گے اور اگر عمران خان پاکستانی عوام کی نظروں سے گر گئے تو پھر اسے امریکا تو کیا دنیا کی کوئی طاقت بھی اقتدار میں نہیں لا سکے گی۔ پاکستان کے عوام آج بھی عمران خان سے محبت کرتے ہیں اور اسے نجات دہندہ سمجھتے ہیں تو صرف امریکا مخالف بیانیے کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، اس بیانیے سے یوٹرن دراصل عمران خان کی سیاست کے خاتمے کا باعث بنے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...