ڈاکٹرمحمدافضل بابر
چنددن قبل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے آڈیٹوریم میں انٹربورڈکمیٹی آف چئیرمین(نیاانٹربورڈکوارڈینیشن کمیشن)کے زیر اہتمام پاکستان بھر سے پوزیشن ہولڈرز طلبہ کے فائنل تقاریری مقابلاجات کی تقریب میں شرکت کا موقع ملا جس کا عنوان دستورِ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقاریب کے سلسلہ میں "میرا آئین میری آزادی کا محافظ"تھا۔ جہاں تمام امتحانی بورڈز کے ذمہ داران کے علاوہ وائس چانسلر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی ڈاکٹرناصرمحمود، سی ای او ڈاکٹرغلام علی ملہا، قیصرعالم خاں،ڈاکٹراکرام علی ملک، ڈاکٹرضیاء بتول، وجہیہ قمر،زیب جعفر اور مہمان خصوصی وفاقی وزیرِ تعلیم راناتنویرحسین اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ طلبہ چونکہ اپنے اپنے اضلاع، بورڈاور صوبوں سے مقابلے جیت کرآئے تھے لہذا ہر بچے کی تقریر ایک سے بڑھ کرایک تھی۔مہمانِ خصوصی کی آمدسے پہلے تمام مقابلاجات مکمل کرلئے گئے صرف پہلی پوزیشن حاصل کرنے والے مردان بورڈ کے طالب علم کو وزیرِ تعلیم کی تقریر سے پہلے دوبارہ موقع فراہم کیا گیا۔ اس تقریب سے ایک دن قبل سپرریم کورٹ کا ایک اہم فیصلہ بھی آیا تھا تو وزیرصاحب نے اپنی تقریر میں مادروطن کو درپیش انتظامی،آئینی اور اداروں کی حدود وقیود پر ک±ھل کراظہارِ خیال کیا۔شبعہ تعلیم کو درپیش مسائل اور انکے حل پر بھی اپنی پارٹی اور حکومت کے بیانیے کا بھی ذکر کیا گیا سب سے اہم بات جو وزیرِ موصوف صاحب نے ایک دبنگ اعلان کے طور پرکی اس نے مجھے چونکا دیا۔وہ اعلان یہ تھا کہ وفاقی حکومت اور وزارتِ تعلیم اپنے ذیلی اداروں کے ذریعے جون 2023تک اسلام آباد میں آوٹ آف سکول بچوں کی تعداد صفر کردے گی۔ میں نے اپنے تعلیمی شعبہ میں تیس سالہ تجربے میں ہردورِحکومت کے سیاسی اعلانات کا جائزہ لیا تو اس اعلان کو ایک انوکھا تصور کیا۔ کیونکہ جس وزارت کے پاس آوٹ آف سکول بچوں کا مکمل ڈیٹا ہی نہیں وہ انکی تعداد صفر کیسے کرسکتی ہے۔ 27مربع کلومیٹر کے علاقے میں تقریباً433سرکاری تعلیمی اداروں پرجتنا بجٹ خرچ کیا جارہا ہے اور انکی کارکردگی کیا ہے؟ وہ کئی بار زیربحث آچکاہے۔ یہاں جس بات کا ذکر کرنا زیادہ ضروری ہے وہ وزیرِ تعلیم کا دبنگ اعلان ہے۔ اس اعلان پر مزید بات کرنے سے پہلے میں وزیر صاحب اور انکے تمام ذیلی اداروں کے سربراہان سے ایک معصومانہ سوال کرنے کی جسارت کررہا ہوں آج کل تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں پہلی جماعت سے نہم جماعت تک کے داخلے جاری ہیں 433میں سے صرف دس اداروں میں ہرسال تقریباً بیس ہزار سے زائدبچے فارم جمع کرواتے ہیں لیکن داخلہ بڑی مشکل سے 2ہزاربچوں کو ملتا ہے تقریباً18ہزار بچے اور انکے والدین کلرکوں سے لیکر پارلیمنٹیرین تک سفارش کروانے کے باوجود داخلہ سے محروم رہتے ہیں ابھی دیگر اداروں کے اعدادوشمار شامل نہیں کیے گئے وہ وفاقی نظامتِ تعلیمات سے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔جناب رانا تنویر صاحب یہ ان بچوں کی تعداد ہے جوآوٹ آف سکول نہیں لیکن داخلہ نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ تر آوٹ آف سکول بچوں میں شامل ہو کر ہرسال ان کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ جون2023کوئی زیادہ دور نہیں اللہ کرے ملکی عدم استحکام میں بہتری آئے اور وزیرِ تعلیم اپنے اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں۔ ایک اور بات کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں " سکول آن ویل اور تعلیم ہر گھر کی ایپ" کا بھی ذکرکیا گیا۔میں حیران ہوں کہ 18ویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے وفاقی وزارتِ تعلیم کی بڑی واولین ذمہ داری وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی تعلیمی ضرورت کو پورا کرنا ہے ایک طرف میں نے سرکاری تعلیمی اداروں کی صورتحال کا ذکر کیا دوسری جانب مدارس دینیہ، غیر رسمی تعلیم کے ادارے اور نجی تعلیمی ادارے بھی ہیں جن کی کارکردگی کو سراہنا تو دور کی بات ان پر طرح طرح کے الزامات اور محکموں کو مسلط کرکے ہمیشہ ان پرسوالیہ نشان بنایا گیا ہے۔ حالانکہ اس خطے میں ہم سب سے پہلے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے داعی تھے لیکن بعد میں اس پر عمل کرنے والے ہم سے آگے نکل گئے کاش ہم اس کا عملی مظاہرہ آج سے ہی کرسکیں؟مجھے نہیں معلوم کہ وزیر ِ تعلیم کے ذہن میں اس اعلان کو عملی شکل دینے کا منصوبہ کیا ہے لیکن میری تجویز ہے کہ زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر اپنے اپنے حصے کی شمع جلانا ہوگی تو پھر وہ دن دور نہیں جب اس طرح کے اعلان منزل تک کا راستہ ہموار کریں گے۔ آج میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تمام سیاسی، سماجی، معاشی اور سول سوسائٹی کے قائدین کی ایک اہم نقطے پرتوجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ خدا را اپنے ذاتی مفادات سے بالاہوکر نسلِ نوکی تعلیمی ضروریات پر مفادعامہ کا پروگرام تشکیل دیں تاکہ عملاًاسلام آباد میں ہر بچے کو سکولوں میں لایا جاسکے۔
وفاقی وزیرِتعلیم کے خیالات اور زمینی حقائق
Apr 11, 2023