کالم:لفظوں کا پیرہن
تحریر:غلام شبیر عاصم
کرہ ارض پر جہاں بھی سورج فلک پر چمکتا دمکتا ہے۔اپنی روشنی کو تمام مظاہراتِ کائنات پر یکساں ڈالتا ہے۔لیکن اس سے اشیائے انواع واقسام اپنی اپنی فطرت اور بساط کے مطابق روشنی،تمازت اور حرارت کو وصول کرتی ہیں۔ایک دور تھا جب مکانوں کی کھڑکیوں میں مختلف رنگوں کے شیشے لگانے کا عام رواج تھا۔سورج کی کرنیں جب ان شیشیوں سے گزرتی تھیں،تو ان کا انعکاس متعلقہ شیشے کے رنگ کی صورت میں ظاہر ہوتا تھا۔حالانکہ روشنی کا مرکز(سورج) تو سب شیشوں پر یکساں روشنی ڈالتا تھا۔حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کا فرمان ہے کہ بارش یکساں برستی ہے مگر گندگی کے ڈھیر پربرسے تو اس کے تعفن میں اضافہ ہوتا ہے،پھول پر برسے تو اس کی رعنائی میں اضافہ ہوتا ہے۔یہی مثال ماہِ صیام کی ہے ماہ صیام آتا تو سب کے لئے برابر ہے،مگر اس سورج(ماہِ صیام) سے کرنیں وصول کرنے والا ہر شیشہ یعنی ہر انسان ان کرنوں کو اپنے اپنے رنگ میں ظاہر کرتا ہے۔اپنا اپنا رنگ دکھاتا ہے۔ماہِ صیام رحمتوں،برکتوں، عنائیتوں اور نیکیوں بھرا مہینہ تصور کیا جاتا ہے۔لیکن ہر انسان اس سے اپنے اپنے ظرف اور معیارِ ایمان کے مطابق"اثرات و ثمرات"وصول کرتا ہے۔بڑے گہرے مشاہدے کی بات ہے کہ بجائے خوفِ خدا کے،صلہ رحمی اور ایمانداری کے ماہِ رمضان میں ملاوٹ،منافقت، سنگدلی،بے ایمانی،دنیاوی ہوس ولالچ جیسی قباحتیں خباثتیں عروج پر ہوتی ہیں۔اشائے خورد و نوش کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے کئی گنا بڑھا دی جاتی ہیں۔اکثر لوگ ماہِ رمضان میں بجائے نیکیوں کے، ملاوٹ کرتے،کم تولتے،جھوٹ بولتے اور ہوسِ مالِ دنیا میں گاہکوں پر سنگدلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اکثر ریڑھیوں والے سارا دن کھڑے کھڑے تھک جاتے ہیں،اور وہ ذہن میں یہ سوچ کر مطمئن ہوتے ہیں کہ وہ صبح سے کھڑے ہیں محنت کر رہے ہیں۔حلال رزق کمارہے ہیں۔دراصل وہ اس مشقت اور تھکاوٹ کے باوجود بھی حرام طریقے سے روزی کما رہے ہوتے ہیں۔وہ روزی کمانے کا آغاز ہی جھوٹ بولنے سے کرتے ہیں۔دکھاتے کچھ ہیں،دیتے کچھ ہیں،کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں۔ہم نے بحیثیت مسلمان اپنے کردار سے لوگوں کو متاثر کرکے"گلستانِ اسلام" تک لانا تھا مگر ہم نے ایسے سیاہ کرتوت دکھائے کہ لوگ اسلام سے متاثر ہونے کو نہیں بلکہ دور رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔محشر میں رسولﷺکریم کو اس کے جواب دہ ہم ہوں گے۔ہندو سینیٹر دنیش کمار اسلام آباد میں ایک اجلاس میں بڑی جذباتی تقریر کررہاتھا جو ہم مسلمانوں کے منہ پر تھپڑ ہے۔دنیش کمار کہہ رہا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ رمضان المبارک کے مہینہ میں شیطان کو جکڑ دیا جاتا ہے۔مگر یہاں پر تو وہ ک±ھلے عام دندناتا پھرتا ہے۔جناب سپیکر رمضان سے پہلے کیلا 150 روپے درجن تھا اب 450 روپے درجن فروخت ہورہا ہے۔جنابِ سپیکر مجھے شرم آرہی ہے رمضان کے مہینےمیں مسلمان، مسلمان بھائیوں ہی کا خون چوس رہے ہیں۔KPK میں دیال سنگھ کو صرف اس جرم کی پاداش میں قتل کردیا گیا کہ وہ رمضان کے احترام میں چیزیں سستی کیوں بیچ رہا ہے۔معروف سرجن ڈاکٹر بِیر ب?ل جوکہ سینکڑوں بار فری میڈیکل کیمپ لگا کر مخلوق خدا کی خدمت کرتا رہا ہے۔ اس سماج سیوک کو بھی موت کے گھاٹ اتاردیا گیا ہے۔کراچی میں رمضان کے دنوں میں لگائے جانے والے ایک سستے اسٹال پر کچھ لوگوں نے دھاوا بول دیا سارا سامان توڑ پھوڑ کرکے ضائع دیا کہ یہ سستا اسٹال کیوں لگتا ہے۔جناب اسپیکر مجھے کہا جاتا ہے کہ دنیش کمار تم مسلمان ہوجاو،میں کیوں مسلمان ہوجاوں پہلے اپنے آپ کو تو ٹھیک کرو پھر کسی دوسرے کو تبلیغ کرو۔جناب اسپیکر غیر مسلم ہوکر مجھے ان واقعات پر شرم آرہی ہے مسلمانوں کو شرم کیوں نہیں آتی۔بے حِسی کے عارضہ سے نکل کر اگر محسوس کیا جائے تو دنیش کمار کے سچ پر مبنی خطاب نے ہمیں جھنجھوڑا ہے۔ہمیں غفلت کی بلکہ عیاشی و بے حِسی کی اس نیند سے بیدار ہونا ہوگا۔ورنہ ہمارے اپنوں ہی کے ہاتھوں اسلام کا چہرہ اتنا بِگڑ جائے گا کہ کائنات کے اِس خوبصورت ترین اور سچے دین کی طرف غیر مسلم دیکھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔مہنگائی اتنی ہے کہ 1000 روپے کا نوٹ اب 100 روپے کا لگنے لگا ہے۔جہاں مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہے وہاں دہشت گردی اور جرائم پر قابو پانا تو بلا شبہ پھر ناممکن کام ہوسکتاہے۔مارکیٹوں اور رمضان بازاروں میں چیکنگ کا سلسلہ بھی کوئی تسلی بخش نہیں ہے۔لگتا ہے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز سے مراد( کمیشن لینے والے لوگ)ہیں۔اگر کہیں کسی بازار میں کوئی چکر لگتا بھی ہے تو ہلکا پ±ھلکا سا جرمانہ کرکے پریس کوریج لے لی جاتی ہے۔یہ ہلکا سا جرمانہ ہونے کے بعد دکاندار مزید شیردل ہوجاتے ہیں،اور اس جرمانہ کا غصہ اگلے ہی روز عوام پر نکالا جاتا ہے۔جرمانہ کے بعد عوام کو نچوڑ کر ان کی جیبوں سے پیسے کی شکل میں حِسِ بے حسی کی تسکین کو کشید کرلیا جاتا ہے۔دراصل ہونا یہ چاہئیے کہ بھاری جرمانہ کے ساتھ دکان سِیل کی جائے اور دکاندار کو ہفتہ عشرہ کے لئے حوالات کی سیر کرائی جائے تاکہ دوسرے دکاندار بھی نصیحت پکڑ سکیں۔لیکن ایسے کرے گا کون اور کیوں کرے گا۔متعلقہ ایم این اے اور ایم پی اے کی فون کال کا احترام بھی تو ڈیوٹی سے بڑھ کر مقدم ہے۔اے سی اور ڈی سی اوز بے چارے بھی کیا کریں۔انہیں بھی تو آخر نوکری کرنی ہے،انہیں بھی پیٹ لگا ہے،بلکہ لگتا ہے ضمیر کی جگہ بھی پیٹ ہی نے لے لی ہے۔یہ م±ردہ ضمیر لوگ اگر"مردہ شکم"ہوجائیں تو دعوے سے کہتا ہوں کہ نظام ٹھیک ہوجائے گا۔