”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“

  

مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com

یہ درست بلکہ مسلمہ حقیقت ہے کہ”ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں“مگر ستاروں تک پہنچنے کے لیے بھی ایک عزم اور ارادے کے ساتھ جہدِ مسلسل کی بھی ضرورت ہے۔ ایسا کرنے والے آپ کو پاکستان میں اور پاکستان سے باہر جا کر ستاروں پر کمند ڈالنے والے کئی نابغہ روزگار مل جائیں گے۔ پیاری دھرتی مردم سازی میں ہمیشہ سے زرخیز رہی ہے۔ علامہ نے کہا تھا ع
”ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی“
 اس کی تازہ ترین مثال میاں چنوں سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان حمزہ یوسف ہے جس کے والدین برطانیہ جا بسے تھے۔ یہ خاندان بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے کلچر اور روایات کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ حمزہ یوسف نے نائن الیون کے مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر نفرت پھیلانے والوں کو جواب دینے کے لیے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور کامیابی کے زینے بڑی تیزی سے طے کیے۔ وہ آج سیاست میں کامیابی کی بنا پر سکاٹ لینڈ کا فرسٹ منسٹر بن گیا۔ چونکہ سکاٹ لینڈ ابھی برطانیہ کے زیر اثر ہے اس لیے اس کے فرسٹ منسٹر کے پاس وزیراعظم جیسے ہی اختیارات ہوتے ہیں۔ حمزہ یوسف نے حلف اٹھایا تو اس کے دادا ،دادی اور ماں باپ بھی موجود تھے۔ حمزہ یوسف نے کہا کہ اسے پنجابی ہونے پر فخر ہے۔ اس کا تعلق بھٹہ جاٹ خاندان سے ہے۔ اس نے انگلش کے بعد اپنی مادری زبان میں بھی حلف اٹھایا۔ اس نوجوان نے محنت کی اور اس کا پھل پایا۔ 
ہمارا خطہ مردم خیز ہے۔ اس کی ایک سے بڑھ کر ایک مثال ہے۔ آج کے برطانوی وزیراعظم رشی سونک کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے۔ اس کے والدین گوجرانوالہ کے رہنے والے ہیں۔ آج امریکہ کی نائب صدر کمیلا ہیرس بھی ہندوستان سے تعلق رکھنے والی ہیں۔ برطانیہ میٹروپولیٹن دنیا کی بڑی پولیٹنز میں سے ہے۔ اس شہر سے کونسلر منتخب ہونا بھی اعزاز ہے۔ اس شہر کا میئر ایم صادق ہے، اس کا تعلق بھی پاکستان سے ہے۔ برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون وزیر بننے کا اعزاز بھی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سعیدہ وارثی کے حصے میں آیا۔ وہ کنزرویٹو پارٹی کی سربراہ بھی رہی ہیں۔ نصرت غنی دوسری مسلم اور پاکستانی خاتون ہیں جو برطانوی کابینہ میں شامل ہوئیں۔ یہ سارے لوگ اور ان کے علاوہ بھی بہت سے بیرونِ ممالک جا کر میرٹ پر ترقی کے عروج پر پہنچے۔سیاست کے باہر بھی پاکستانی بلندیوں پر نظر آتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے دو تین امیر ترین شخصیات میں ایک شاہد خان ہیں وہ امریکہ میں قیام پذیر ہیں، وہیں سے انہوں نے محنت کرکے ایک مقام بنایاہے۔ پاکستانیوں کو وسائل دستیاب ہوں تو ایسے ہی ترقی کے مراحل طے کرتے نظر آئیں۔ ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کمی نہیں، اسے اجاگر کرنے اور مواقع فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ میں خود بھی ان پاکستانیوں میں ہوں جو پاکستان میں ہی رہتے تو کیا کرلیتے۔مگر بیرونِ ملک گئے تو پاکستان کی نیک نامی کے ساتھ اپنا مستقبل تابناک بنایا اورپاکستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کیا۔آج ہم پاکستانیوں کے ساتھ یہ ہورہا ہے کہ ووٹ کا حق دے کر چھین لیا گیا ہے۔پاکستان میں ہماری جائیدادیں ،گھر ،کاروبار اور خاندان محفوظ نہیں ہیں۔اس کے باوجود ہم پاکستان زندہ باد کا نعرہ اس یقین کے ساتھ لگاتے ہیں کہ صبح نوید ضرور طلوع ہوگی۔
آج بھگت سنگھ اور رائے احمد خان کھرل جو ہماری آزادی کے ہیرو ہیں، ان کا خواب پورا ہو گیا۔ بھگت سنگھ کو آزادی کی خاطر قید کاٹنی پڑی اور پھانسی دے دی گئی۔ احمد خان کھرل کو انگریز فوج نے مقابلے کے دوران شہید کر دیا تھا۔ ان دو شہدائ کے خوابوں کی تعبیر ہے کہ آج اس خطے سے تعلق رکھنے والے اکابر ان ممالک میں حکمرانی کر رہے ہیں جو کبھی غاصب کی حیثیت سے اس خطے پر قابض تھے۔ آزادی کے ہیروز کی قربانیوں سے استعمار اس خطے سے نکل گیا مگر وہ اس خطے کے لوگوں کو اپنے اندر سے نہیں نکال سکا۔ یہی قوموں کا انتقام ہوتا ہے۔
ایک طرف ہمارا تعلق مردم خیز خطے سے ہے، دوسری طرف ہم کچھ مفاد پرستوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھ کر رسوا ہو رہے ہیں۔ ہم زندہ قوم ہونے کے دعویدار ہیں۔ آج حکمرانوں نے زندہ قوم کو آٹے کی قطاروں میں لگا دیا ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، کتنی شرم کی بات ہے کہ زرعی ملک میں گندم کی کمی ہو گئی۔مجھے دو روز قبل سوئٹزرلینڈ اور جرمنی جانا پڑا۔ وہاں پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کئی گوروں نے مجھے کہا کہ اگر سوئٹزرلینڈ میں چاکلیٹ اور دودھ کی کمی ہو جائے تو یہ ہمارے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے، وہاں گندم کی کمی ہو گئی لوگ آٹے کی قطاروں میں کھڑے ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ 
قارئین !میں نے بچپن میں ایک مثال بزرگوں سے سنی تھی کہ ”کبوتر بلی کو دیکھ کر بے شک جتنی مرضی آنکھیں بند کر لے مگروہ بلی کی آنکھیں بند نہیں کر سکتا“تو قارئین ہمارے ملک کے سیاستدانوں اورہمارے رہنما?ں کے حالات بھی کچھ ایسی ہی ہیں۔ یعنی انہیں کوئی یہ بتانے والا ہی شاید نہیں ہے کہ ان کے سارے کرتوت آج کے اس ڈیجیٹل دور میں ہر شخص پہ عیاں ہیں۔یہ ہم کوئی پندرہویں صدی میں نہیں رہ رہے بلکہ یہ 2023ئ کا زمانہ ہے۔ دنیا ہمارے وطن میں چلنے والے اس سیاسی کھلواڑ کو اپنی عینک سے دیکھ رہی ہے۔حتیٰ کہ عالمی میڈیا اور عالمی سیاست بشمول اقوام متحدہ اور ہمارے اتحادی عرب ممالک ،ترکی اور چین بھی ہمارے کرنٹ افیئرز پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔اور وہ یہ یقینا سوچ رہے ہوں گے کہ دنیا میں یہ کونسا خطہ ہے جہاں کے سیاسی رہنما اور جہاں کے ادارے خوابِ غفلت سے بیدار ہی نہیں ہو رہے۔ قارئین ! مجھے یقین ہے کہ ظلمتِ شب کی سحر ہونے والی ہے اور صبح کے سورج کی پہلی کرن میرے وطن کے عوام کے لیے خوشخبری لانے ہی والی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...