اسلام آبادہائیکورٹ کےچھ ججزکےخط پرسوموٹوکیس میں سپریم کورٹ کی پہلی سماعت کاحکم نامہ جاری کردیاگیا۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے پہلی سماعت کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججوں کے خط کے معاملے کی سنجیدگی کو دیکھتے ہوئے ازخود نوٹس لیا گیا، معاملہ اہم ہونے کی وجہ سے وزیراعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا اور فل کورٹ اجلاس میں آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم کو حاصل استثنیٰ کا حوالہ دیا گیا، آرٹیکل 248 کے تحت وزیراعظم یا وزیر قانون کو طلب نہیں کیا جا سکتا۔حکم نامےمیں مزیدکہاگیاکہ جسٹس اطہر من اللہ کےمطابق پیراگراف ایک سے 12 تک سے اتفاق کیلئے خود کو قائل نہیں کر سکا، وزیراعظم کو طلب کیا جا سکتا ہے یا نہیں اس سوال پر فل کورٹ نےابھی غور کرنا ہے، حکومت کے کمیشن بنانے سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوتی ہے یا نہیں ابھی طے ہونا ہے،جو سوال عدالت کے سامنے ہیں ان پر ابھی رائے دینا مناسب نہیں،ہائیکورٹ ججز کا خط دکھاتا ہے وہ ہر متعلقہ فورم پر معاملہ اٹھاتے رہے، معاملے کی سنجیدگی کے باوجود ادارے نے رسپانس نہیں دیا۔حکم نامےکہاگیاکہ جسٹس اطہر من اللہ کےمطابق ہائیکورٹ ججز نے وہی کیا جو ہر جج حلف کیمطابق کرنے کا پابند ہے،ہائیکورٹ کے چھ ججز پر شک کی کوئی وجہ موجودنہیں ،ہائیکورٹ ججز نے آئین کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہے،سیاسی اثرات رکھنے والے کیسز میں مداخلت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی وزیر قانون نے لاہور میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کے گھر جا کر ملاقات کی اور بعد ازاں انکوائری کمیشن کے بارے میں مجوزہ ٹی او آرز بھی فراہم کیے، بدقسمتی سے تصدق جیلانی کیخلاف سوشل میڈیا پر مہم چلائی گئی۔حکم نامے کے مطابق اٹارنی جنرل نے کہا ججوں کے خط میں موجودہ چیف جسٹس کے دور کا کوئی واقعہ درج نہیں ہے، سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کے ججوں کے خط کے معاملے پر عدلیہ کے بطور ادارہ ردعمل کیلئے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کر لی ہیں۔
شیئر کریں: