ہمیں اپنی حکومت کے ساتھ بڑی محبت اور ہمدردی ہے۔ یہ حکومت ہمیں بے حد پیاری لگتی ہے اور کیوں نہ ہو‘ یہ ہماری اپنی حکومت ہے نا‘ اس لئے۔ اس کے بلند و بانگ دعوے سن کر ہمیں کبھی غصہ نہیں آتا بلکہ ہمارے دل میں تو اس کے لئے ہمدردی‘ پیار‘ اخوت اور دوستی کے جذبات جنم لیتے ہیں تاہم بعض سیاسی مخالف اور چھچھوری قسم کے نقاد‘ محض تعصب کے سبب اس کے ہر دعوے کا مذاق اڑاتے اور ٹھٹھا کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسے عناصر کو سوچنا چاہئے اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود یہ حکومت ہے تو عوامی اور پاکستانی‘ بھارتی یا امریکی تو نہیں! ویسے مذاق اڑانے کو کس کا دل نہیں چاہتا اور پھر جناب آصف علی زرداری اور انکے پچیس پیاروں کو دیکھ کر تو یہ دل مزید چاہنے لگتا ہے لیکن ہم اس خواہش کو ہمیشہ دبائے ہی رکھتے ہیں حالانکہ واپڈا ہو یا داخلہ‘ خارجہ ہو یا خزانہ‘ اپنی اس پیاری اور معصوم سی ہومیوپیتھک حکومت کے ہر بلند و بانگ دعوے پر ہمیں وہ سردار جی والا لطیفہ بے اختیار یاد آتا ہے مگر کیا مجال جو ہم نے اس کا اثر قبول کیا ہو حالانکہ ہمارے بعض ناعاقبت اندیش دوست اس لطیفے کو بذریعہ ایس ایم ایس آگے بڑھانا فرضِ اولین سمجھتے ہیں۔ ویسے تو یہ بیہودہ سا لطیفہ آپ کو سنا کر آپ کا ذہن بھی متزلزل کرنے والی بات ہی ہے مگر پختہ ایمان والوں کو اس قماش کے لطیفوں اور ’’بھانڈ زدگیوں‘‘ سے ہرگز نہیں گھبرانا چاہئے۔ لطیفہ کچھ یوں ہے:
ایک سردار جی اپنی بیگم کو مطلع کرتے ہیں کہ ’’آج شام چار بجے فلاں میدان میں کھوتوں‘ یعنی گدھوں کی دوڑ ہے اس لئے مجھے بہرصورت وہاں پہنچنا ہے‘‘۔ سردارنی حقارت اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بولی ’’آپ سے چلا تو جاتا نہیں‘ دوڑ آپ نے کیا خاک لگانی ہے‘‘۔ بہرحال‘ اس بات میں بھی چنداں شک نہیں کہ ہماری یہ نہایت پیاری اور مجذوب سی حکومت اب ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں‘ ہر سول حکومت اِدھر اپنا سفر شروع کرتی ہے تو اُدھر یہاں کی پراسرار قوتیں اپنے ہرکارے بھیج کر اس بدنصیب کو بند گلی کی طرف ہانک لاتی ہیں۔ زرداری حکومت کی ایک اور بہت بڑی شکست مشیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کا استعفیٰ ہے۔ یہ حضرت‘ آصف علی زرداری کے بے حد قریب ہیں اور آپکے کریڈٹ پر بھی سب سے بڑی بات ہے ہی یہی کہ آپ بھی دیگر انگنت قریبی دوستوں کی طرح ایام جیل و ہسپتال کے دوران زرداری صاحب کی ہڈی پسلی کا خیال رکھا کرتے تھے۔ موصوف‘ صدر مملکت کے انتہائی قریب تھے اور شاید اسی نسبت کے سبب بے شمار مسائل و تنازعات کی زد میں تھے۔ آپ کی ’’شکایات‘‘ اندرون ہی نہیں‘ اب تو بیرون ملک سے بھی آنے لگی تھیں۔ چنانچہ وہ پراسرار فہرست جو صدر مملکت کو آج سے دو ایک ماہ پہلے بعض اہم حلقوں کی طرف سے تھمائی گئی تھی جس میں ان آٹھ احباب کے اسمائے گرامی درج تھے جنہیں ایوان صدر سے خارج کرنے اور انکے دفاتر باہر منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی‘ اس میں ابتدائی دو تین ناموں میں سے ایک ڈاکٹر عاصم کا ہی تھا۔ یاد رہے کہ ہم نے اس فہرست کا تذکرہ سب سے پہلے کیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کی فراغت زرداری کیلئے انتہائی سنگین نوعیت کی ڈویلپمنٹ اور لمحۂ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ آجکل شدید غم و غصے کا پیکر دکھائی دیتے ہیں اور اپنے وزیراعظم سمیت مختلف اہم پارٹی عہدیداروں اور بعض گستاخ بلکہ ناخلف صحافی دوستوں کے خلاف شکایات کرتے پائے جاتے ہیں۔
اگلا دھچکا آپ کو چودہ اگست کے دن لگ سکتا ہے کہ ہماری ذاتی اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایوان صدر میں برپا ہونے والی یوم آزادی کی تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے اور مذکورہ پروگرام میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی‘ تو پھر آرمی چیف کی یہ غیرحاضری بے حد معنی خیز ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ روایت یہی ہے کہ اس روز آرمی چیف ایوان صدر کی تقریب میں شرکت ضرور کرتے ہیں۔ دمِ تحریر‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی سیدو شریف میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ پائے جا رہے ہیں جبکہ اس تقریب میں وزرائے اعلیٰ سرحد اور پنجاب بھی موجود ہیں۔ ان تمام اہم کرداروں کا یکجا ہونا بھی ایوان صدر کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے ایوان صدر میں وزیراعظم گیلانی کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے مولاناؔ نے بعض پراسرار وجوہات کی بنا پر حکومت سے علیحدگی کی ایک دھواں دھار دھمکی دے رکھی تھی اور بعض حلقے یقین کر چکے تھے کہ اس مرتبہ مولانا صاحب واقعی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے تاہم مبینہ طور پر انتہائی خوشگوار ماحول میں ہونے والی مذکورہ ملاقات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مولانا نے حکومت سے 5000 کا حج کوٹہ بزورِ شمشیر طلب کر لیا ہے اور صدر زرداری نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومتی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے‘ موصوف کو مذکورہ کوٹے سے نواز دیا ہے۔ چنانچہ اب مولانا کی مزید ناراضی کا جواز کم از کم اگلے چار پانچ ماہ کیلئے تو ختم ہی سمجھیں۔ البتہ اس ’’واردات‘‘ کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پارلیمنٹ کے تمام ارکان اپنا اپنا حج کوٹہ بار دیگر بحال کروائیں گے اور ہر ممبر اسمبلی حسب توفیق حکومت کو بلیک میل کر کے وہ تمام کروانے کی کوشش کرے گا جو پچھلے ماہ سے التواء کا شکار تھے۔
سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کی تبدیلی کا تذکرہ آجکل ہوا کے دوش پر ہے اور امکان یہی ہے کہ شاہ صاحب کو اب دروازہ دکھا دیا جائے گا۔ یہ بھی زرداری صاحب کیلئے عظیم الشان لمحہ فکریہ ہے۔
مشرف کو ٹانگنے کے حوالے سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی خواہ مخواہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈال رہی ہیں حالانکہ دونوں کو اس معاملے میں اپنی اپنی مجبوریوں کا خوب علم ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ باتیں اسی کالم میں ہم بیسیوں بار کر چکے ہیں۔ بہرحال ہمیں اپنی پیاری حکومت کے ساتھ بے حد ہمدردی اور محبت ہے مگر نجانے کیوں اسے اس کا احساس ہی نہیں ہوتا!!
ایک سردار جی اپنی بیگم کو مطلع کرتے ہیں کہ ’’آج شام چار بجے فلاں میدان میں کھوتوں‘ یعنی گدھوں کی دوڑ ہے اس لئے مجھے بہرصورت وہاں پہنچنا ہے‘‘۔ سردارنی حقارت اور ہمدردی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ بولی ’’آپ سے چلا تو جاتا نہیں‘ دوڑ آپ نے کیا خاک لگانی ہے‘‘۔ بہرحال‘ اس بات میں بھی چنداں شک نہیں کہ ہماری یہ نہایت پیاری اور مجذوب سی حکومت اب ایک بند گلی میں داخل ہو چکی ہے۔ ہمارے ملک میں یہ کوئی نئی بات نہیں‘ ہر سول حکومت اِدھر اپنا سفر شروع کرتی ہے تو اُدھر یہاں کی پراسرار قوتیں اپنے ہرکارے بھیج کر اس بدنصیب کو بند گلی کی طرف ہانک لاتی ہیں۔ زرداری حکومت کی ایک اور بہت بڑی شکست مشیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم کا استعفیٰ ہے۔ یہ حضرت‘ آصف علی زرداری کے بے حد قریب ہیں اور آپکے کریڈٹ پر بھی سب سے بڑی بات ہے ہی یہی کہ آپ بھی دیگر انگنت قریبی دوستوں کی طرح ایام جیل و ہسپتال کے دوران زرداری صاحب کی ہڈی پسلی کا خیال رکھا کرتے تھے۔ موصوف‘ صدر مملکت کے انتہائی قریب تھے اور شاید اسی نسبت کے سبب بے شمار مسائل و تنازعات کی زد میں تھے۔ آپ کی ’’شکایات‘‘ اندرون ہی نہیں‘ اب تو بیرون ملک سے بھی آنے لگی تھیں۔ چنانچہ وہ پراسرار فہرست جو صدر مملکت کو آج سے دو ایک ماہ پہلے بعض اہم حلقوں کی طرف سے تھمائی گئی تھی جس میں ان آٹھ احباب کے اسمائے گرامی درج تھے جنہیں ایوان صدر سے خارج کرنے اور انکے دفاتر باہر منتقل کرنے کی سفارش کی گئی تھی‘ اس میں ابتدائی دو تین ناموں میں سے ایک ڈاکٹر عاصم کا ہی تھا۔ یاد رہے کہ ہم نے اس فہرست کا تذکرہ سب سے پہلے کیا تھا۔ ڈاکٹر عاصم کی فراغت زرداری کیلئے انتہائی سنگین نوعیت کی ڈویلپمنٹ اور لمحۂ فکریہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ آجکل شدید غم و غصے کا پیکر دکھائی دیتے ہیں اور اپنے وزیراعظم سمیت مختلف اہم پارٹی عہدیداروں اور بعض گستاخ بلکہ ناخلف صحافی دوستوں کے خلاف شکایات کرتے پائے جاتے ہیں۔
اگلا دھچکا آپ کو چودہ اگست کے دن لگ سکتا ہے کہ ہماری ذاتی اطلاعات کے مطابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ایوان صدر میں برپا ہونے والی یوم آزادی کی تقریب میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے اور مذکورہ پروگرام میں کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوتی‘ تو پھر آرمی چیف کی یہ غیرحاضری بے حد معنی خیز ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ روایت یہی ہے کہ اس روز آرمی چیف ایوان صدر کی تقریب میں شرکت ضرور کرتے ہیں۔ دمِ تحریر‘ جنرل اشفاق پرویز کیانی سیدو شریف میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے ہمراہ پائے جا رہے ہیں جبکہ اس تقریب میں وزرائے اعلیٰ سرحد اور پنجاب بھی موجود ہیں۔ ان تمام اہم کرداروں کا یکجا ہونا بھی ایوان صدر کے لئے کسی صدمے سے کم نہیں ہے۔
گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے ایوان صدر میں وزیراعظم گیلانی کے ہمراہ صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کی۔ اس سے کچھ عرصہ پہلے مولاناؔ نے بعض پراسرار وجوہات کی بنا پر حکومت سے علیحدگی کی ایک دھواں دھار دھمکی دے رکھی تھی اور بعض حلقے یقین کر چکے تھے کہ اس مرتبہ مولانا صاحب واقعی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے تاہم مبینہ طور پر انتہائی خوشگوار ماحول میں ہونے والی مذکورہ ملاقات کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ مولانا نے حکومت سے 5000 کا حج کوٹہ بزورِ شمشیر طلب کر لیا ہے اور صدر زرداری نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ حکومتی پالیسی تبدیل ہو چکی ہے‘ موصوف کو مذکورہ کوٹے سے نواز دیا ہے۔ چنانچہ اب مولانا کی مزید ناراضی کا جواز کم از کم اگلے چار پانچ ماہ کیلئے تو ختم ہی سمجھیں۔ البتہ اس ’’واردات‘‘ کا منطقی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پارلیمنٹ کے تمام ارکان اپنا اپنا حج کوٹہ بار دیگر بحال کروائیں گے اور ہر ممبر اسمبلی حسب توفیق حکومت کو بلیک میل کر کے وہ تمام کروانے کی کوشش کرے گا جو پچھلے ماہ سے التواء کا شکار تھے۔
سیکرٹری داخلہ کمال شاہ کی تبدیلی کا تذکرہ آجکل ہوا کے دوش پر ہے اور امکان یہی ہے کہ شاہ صاحب کو اب دروازہ دکھا دیا جائے گا۔ یہ بھی زرداری صاحب کیلئے عظیم الشان لمحہ فکریہ ہے۔
مشرف کو ٹانگنے کے حوالے سے نواز لیگ اور پیپلز پارٹی خواہ مخواہ ایک دوسرے پر ملبہ ڈال رہی ہیں حالانکہ دونوں کو اس معاملے میں اپنی اپنی مجبوریوں کا خوب علم ہے۔ زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ یہ باتیں اسی کالم میں ہم بیسیوں بار کر چکے ہیں۔ بہرحال ہمیں اپنی پیاری حکومت کے ساتھ بے حد ہمدردی اور محبت ہے مگر نجانے کیوں اسے اس کا احساس ہی نہیں ہوتا!!