یوں تو وطن عزیز کے مسائل کبھی بھی کم نہیں ہوئے، اگر معاشی مصائب کا بوجھ کم ہوا تو سیاسی مسائل کے بھوت نے دبوچ لیا اور کبھی سماجی پسماندگی نے گھیر لیا اور کبھی اخلاقی بے راہ روی وطن عزیز پر حملہ آور ہوئی آج کی تاریخ کا المیہ یہ ہے کہ ان تمام مصائب اور لعنتوں نے قومی وجود کو جکڑ لیا ہے اور ان حالات میں تمام بڑی سیاسی قیادتوں کا جائزہ لیا جائے تو ہر طرف آپ کو چوروں اور ڈاکوﺅں کے گروہ خفیہ اور ظاہری وارداتوں میں مشغول نظر آتے ہیں، ان کی تیزی اور پھرتی ایسی ہے جیسے کہ ان کی زندگی کا آخری دن ہو اور مال کمانے کا آخری موقع ہو اور اب اکثر سیاسی جماعتوں کے لیڈر باری باری پریس کانفرنس کرکے ایک دوسرے کی خفیہ وارداتوں کے ذریعے کمائے گئے مال و دولت کو عوام کو ثبوتوں کے ساتھ بتا رہے ہیں تو قوم کو سمجھ آ رہی ہے کہ جنہیں وہ اپنے رہنما سمجھتے ہیں وہ تو سارے ہی راہزن نکلے ہیں اور انہی کی وجہ سے ہی عوام معاشی طور پر کمزور ہوئے ہیں اور رہنما کے روپ میں رہزن امیر سے امیر تر ہوتے گئے ہیں ٹیکسوں کا نظام بدحالی کا شکار ہے ملک کا صدر بذات خود بڑے بڑے کارپوریٹ کیسز کی نگرانی اپنے ایجنٹوں کے ذریعے کرتا ہے، اسی طرح سرکاری ٹھیکوں کا مسئلہ ہے۔
PTCLجو کہ ملکی صنعت اور مواصلاتی نظام کا بہت اہم سیکٹر ہے اور انتہائی منافع بخش بھی ہے۔ پچھلے دنوں FBR کے سابقہ چیئرمین نے ایک حکم سلطانی کے ذریعے اس کے اربوں روپے کے بقایا جات معاف کر دیئے جیسے کہ راجوں مہاراجوں کی ذاتی سلطنت میں شاہی معافی ناموں کے ذریعے مالی اور اخلاقی جرائم معاف کر دیئے جاتے تھے اور یاد رکھیے کہ یہ سب رحجانات NROکی لعنت کی پیداوار ہیں جس کی حفاظت ہمارے صدر محترم کر رہے ہیں۔ PTCLکے کیسز FBR نے ہمیشہ صدر محترم کی منشا اور خواہشات کے مطابق کیے ہیں بلکہ ایک سابقہ چیئرمین جو کہ چیف سیکرٹری پنجاب بھی رہے ہیں بذات خود ایوان صدر میں فائل اور ریکارڈ لیکر حکم اکبری کے مطابق احکام صادر کیا کرتے تھے لیکن اس وقت وزیر خزانہ صاحب بھی درمیان میں کود پڑے جس سے سرکار اعلیٰ کے ذاتی بجٹ میں رخنہ پڑ گیا تو پھر فوری طور پر اس چیئرمین کو بھی بدل دیا گیا اور انکوائری بھی شروع کروا دی گئی ہے۔
آج قوم کی معاشی حالت یہ ہے کہ اس کے اپنے وسائل تقریباً تمام خرچ ہو چکے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو عام مارکیٹ میں جنس فروخت کی طرح نیلام کر رہی ہیں۔ ہماری نوجوان لڑکیاں امراءاور وڈیروں کے آنگنوں کی زینت اور خوشیاں تقسیم کرنے پر مجبور ہو چکی ہیں لیکن کسی قابل تعریف رہنما کو جرات نہیں کہ آگے بڑھ کر ان سپنا جیسی بچیوں کے نام پر ہی استحصالی نظام کا قلع قمع کرے۔ آج پاکستانی قوم معاشی بدحالی کا شکار ہے اور اس معاشی ناانصافی کا علاج موجودہ سیاسی رہنماﺅں کے پاس ڈھونڈنا اپنے آپ کو ڈھونڈنے کے مترادف ہے جن کو ہم نے اپنے اوپر مسلط کیا ہوا ہے۔