میاں نواز شریف شریف کی نوازشانہ طرز حکمرانی کی یہ ادا ہمیں بہت اچھی لگتی ہے کہ وہ جب کبھی اقتدار میں آتے ہیں ایک عدد اس وقت کے نامور کالم نگار کو اپنے دامِ حکمرانی میں لے لیتے ہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اسے اس مقام پر پہنچا دیتے ہیں جو کبھی اسکے خواب و خیال میں بھی نہیں ہوتا اور یہ انفرادیت صرف میاں صاحب کو ہی حاصل ہے کہ وہ ہر دفعہ اپنے دور اقتدار میں ایسا کرتے ہیں جبکہ کوئی دوسرا سربراہ حکومت خواہ وہ فوجی ہو یا سویلین ایسا نہیں کر پاتا یا کرنا نہیں چاہتا اور پھر وہ کالم نگار جو ان کی قربت میں آتا ہے عمر بھر ....ع
بنا ہے شاہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
کے طور پر ہی پہچانا جاتا ہے۔
جنرل ضیاالحق کے زمانے میں جب میاں صاحب وزیر اعلیٰ پنجاب بنے، تو ان کی نظرِ التفات اس وقت کے ہردلعزیز کالم نگار عطاالحق قاسمی پر پڑی اور انہیں اپنے سایہ شفقت میں لے لیا تو وہ بھی انکے گن گانے لگے اور پھر جب میاں صاحب مملکت پاکستان کے وزیراعظم بنے تو انہوں نے قاسمی صاحب کو جو ان دنوں ایک کالج میں پڑھا رہے تھے اور کالم نگاری کے علاوہ ایسا کوئی تجربہ یا میرٹ بھی نہ رکھتے تھے بیک جنبش قلم ناروے کا سفیر بنا کر پوری صحافی برادری کو حیران کر دیا۔ کچھ تو حسد میں جل کر کباب ہو گئے تو کچھ خوشی سے لوٹ پوٹ گئے کہ چلو ان کیلئے بھی ترقی کا ایک ایسا رستہ کھلا تو ہے کہ قلم نے یاوری کی تو وہ بھی ایک روز اس رُتبے پر پہنچ سکتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہم بھی تب سے اس عہدے کے امیدوار بن گئے آخر ایک عرصہ سے اخباروں میں کالم لکھ رہے ہیں۔ گویا اب ”ہم سب امید سے ہیں۔“
تاوقتیکہ میاں صاحب ایک بار پھر اقتدار میں لوٹ آئے ہیں۔ تو قاسمی صاحب بھی دوبارہ ”بنا ہے شاہ کا مصاحب“ کی حیثیت میں لوٹ آئے ہیں، اللہ ان کو یہ منصب مبارک فرمائے لیکن اس سے انکے قارئین جن میں ہم بھی شامل ہیں، ایک عمدہ، کرسپی، غیر جانبدار کالم سے محروم ہو گئے ہیں۔ میاں صاحب دوسری بار وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے تو اپنی مشاورت کیلئے انکی نظر انتخاب اب کے اس وقت کے نامور کالم نگار نذیر ناجی پر پڑی تو سرکاری طور پر انہیں اپنا مشیر خاص مقرر کر دیا اور یوں وہ میاں صاحب کو سیاسی مشورے دینے کے علاوہ انکی تقریریں بھی لکھنے لگے۔ فن کالم نگاری کا یہ شہسوار جب امور سلطنت کے سیاسی اور انتظامی میدان میں اترا تو وزیراعظم کو ”ایسے ہی مشورے“ دئیے جن کا یہی نتیجہ نکلا کہ ....ع
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
انکی لکھی ہوئی آخری تقریر، میاں صاحب کے گلے میں پھنسی ہڈی بن کر رہ گئی جن کی انہیں بار بار وضاحتیں کرنی پڑیں اور ناجی صاحب اس تقریر کو میاں صاحب کے بیٹے کی ڈکٹیشن بتاتے رہے اور پھر میاں صاحب جب مارشل لا کے چنگل میں گرفتار ہوئے تو ناجی صاحب سلطانی گواہ بنتے بنتے رہ گئے۔ اور پھر یہ بھی ہوا کہ قسمت کی دیوی ایک بھر پھر میاں صاحب پر مہربان ہوئی اور وہ تیسری بار ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تو وزیراعظم بنتے ہی ان کا یہ دیرینہ شوق یا کمزوری حسب معمول پھر سے جاگ اُٹھی تو اب کے انکی نظر انتخاب اس وقت کے نامور کالم نگار عرفان صدیقی پر پڑی تو انہیں مشیر خصوصی مقرر کر لیا اور پھر انہیں ایک ایسے امتحان میں ڈال دیا جو ایک کالم نگار کے بس کا روگ نہیں ہو سکتا اور وہ یہی کہ انہوں نے عرفان صدیقی کو اس چار رکنی کمیٹی میں سرکار کا نمائندہ بنا کر طالبان سے مذاکرات کرنے کیلئے بھیج دیا جو ان کیلئے ایک بھاری پتھر ثابت ہوا جسے چوم کر انہوں نے چھوڑ دیا تو وزیراعظم کو بھی خیال آیا کہ، یہ اسی کا کام جسے کو ساجھے۔ ایک قلمکار کو قلمکاری تک ہی محدود رہنا چاہئے تو پھر انہیں ان کاموں تک محدود کر دیا گیا جو انکی استطاعت میں نہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہیں۔ یہاں عطاالحق قاسمی بن کر نکلتے ہیں یا نذیر ناجی، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اللہ ان کو نظر بد سے محفوظ رکھے۔ آمین!
میاں نواز شریف کی نوازشانہ طرز حکمرانی
Aug 11, 2014