ہنگامہ ہے کیوں برپا؟ اس کی کچھ سمجھ آتی ہے اور کچھ نہیں آتی،وہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ڈالر کو نیچے لے آئے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ ریل چل پڑی، جن کے نزدیک دانش سکول سسٹم اور لیپ ٹاپ سے تعلیمی انقلاب نے دستک دی ہے۔ جو فرماتے ہیں کہ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا فارمولا مل چکا۔ جن کا دعویٰ ہے کہ وہ جمہوریت کے سب سے بڑے چیمپئن ہیں انکی خدمت میں عرض ہے کہ ڈالر نیچے لائے ہیں تو آلو پیاز اور پٹرول، بجلی، گیس اور دوا کے نرخ بھی نیچے لا کر دکھائیں، جب دعویٰ ہے اتنے بڑے معاشی سر پرائز کا تو پھر یہ بھی ممکن بنائیں!! واقعی ریل چل پڑی ہے، تو 28سے زائد اداروں کے سر براہان کو بھی چلا کر دکھائیں تا کہ اداروں کا صحیح سمت چلن شروع ہو جائے۔ اگر میرٹ کا چلن ہوتا تو اداروں کی چال بھی درست ہو جاتی۔ ہاں دانش سکول سسٹم اور لیپ ٹاپ انقلابی اقدامات ہیں اور تعلیمی انقلاب کی آمد آمد ہے تو وزیروں ، مشیروں، سیکرٹریوں، اعلیٰ افسران اور بڑے تعلیمی ماہرین نے بچے سرکاری اداروں میں داخل کرا دیئے ہیں؟ لوڈ شیڈنگ کے معاملے میں نندی پور پراجیکٹ کی سنگین غلطی کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور بجلی اور پانی کے وفاقی وزیر اور وزیر مملکت نے اخلاقی بلندی کے لئے کیا قوم سے کم از کم معافی مانگ لی؟ کیا جمہوریت کے دعویداروں نے ایک ہی گھر اور گھروندے میں عہدوں کی تقسیم سے تو بہ کر لی ہے؟
یہ سب باتیں اپنی جگہ پر۔ حکمت عملی میں کمزوریاں اپنی جگہ پر تا ہم ان سب چیزوں کے باوجود مڈ ٹرم الیکشن کرانے کی ضرورت ہے نہ یہ مسائل کا حل ، عمران خان چونکہ زندگی میں پہلی دفعہ جیتے ہیں اور پہلی ہی دفعہ ہارے ہیں، نیا تجربہ ہے اور کھیل میں پہلی دفعہ سیاسی کھلاڑی کی حیثیت حاصل کی ہے لٰہذا اضطراب کی انتہا ہے، شاید وہ بھول گئے کہ ہار تسلیم کرنا کھیل کر پہلا اصول ہے۔ اور دوسرا اصول یہ ہے کہ جیتنے کے باوجود اپنے کھیل میں نکھار لائیں کیونکہ اگلا میچ اور بھی مشکل ہو گا۔ افسوس کہ مایہ ناز سپورٹس مین اور سیاست کے ہر دلعزیز کھلاڑی نے دونوں اصولوں کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اگر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اتر گئی تو ملزم اور مجرم عمران خان گردانے جائیں گے۔ جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری کا معاملہ ہے وہ ابھی تک خود کو پارلیمانی جمہوری ،سیاسی کھلاڑی ہی نہیں منوا پائے۔ اس لئے عمران خان کو احتیاط سے کام لینا ہو گا۔ کیا ضروری ہے کہ عمران خان خواجہ آصف ،خواجہ سعد رفیق و عابد شیر علی اور رانا مشہود جیسے لوگوں یا پرویز رشید کی ہر بات پر سیخ پا ہو کر آپے سے باہر ہو جائیں عمران خان کو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہ خود ایک لیڈر ہیں، بڑے لیڈر، جبکہ متذکرہ لوگ بڑھ بڑھ کر باتیں اپنی نوکری پکی کرنے کے لئے کرتے ہیں۔ اسی طرح عمران خان شیخ رشید اور شاہ محمود قریشی جیسے لوگوں کے دام میں بھی نہ آئیں کیونکہ یہ لوگ کبھی اپنوں کے ساتھ چل پائے نہ بے گانوں کے سنگ۔ ایک وزارت کی خاطر پی پی پی چھوڑ دی اور قریشی صاحب کے لئے دوست زرداری دشمن زرداری ہو گیا۔ عمران خان کے ٹکٹ کو نظر انداز کر کے اور پالیسی کو فراموش کر کے گھوٹکی الیکشن ہارنے چلے گئے۔ جناب شیخ کی سیاست کا محور و مرکز ہی زیب داستان پر منحصر ہے۔ یہ ضروری ہے کہ عمران خان قومی لیڈر کی حیثیت سے سوچیں اور شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں سے اجتناب کریں۔ اس وقت کا قومی المیہ یہ بن گیا ہے کہ محترم وزیر اعظم بھی عمران خان کی طرح شاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروں پر ایمان لائے ہوئے ہیں۔قومی افق پر اس وقت میاں نواز شریف اور عمران خان اس لیڈر کی سی پوزیشن میں ہیں کہ ایک مثبت قدم اور اقدام منزل کی ضمانت بن سکتا ہے اور ایک منفی یا بھٹکا ہوا قدم قوم کو بہت پیچھے لے جا سکتا ہے۔ ان دونوں کے علاوہ آصف زرداری، اسفندیارولی، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور الطاف حسین ایسے لیڈر ہیں جو اپنا اثرورسوخ رکھتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ لوگ بھی اس وقت حُب علی نہیں بغض معاویہ کی سی پالیسیوں سے باہر نکلیں قومی سلامی کونسل کے شرکاء کیمرہ کے سامنے کے علاوہ بھی صادق ہی نظر آئیں تو مزہ ہے!
پاکستان کو خوشحال پاکستان، مستحکم پاکستان یا نیا پاکستان بنانا ہے تو جمہوری طریقے ہی سے بنایا جا سکتا ہے اور کوئی بھی ’’آئینی‘‘ یا غیر آئینی طریقہ کارگر نہیں ہو گا۔ جس انقلاب کی بات اس وقت ڈاکٹر طاہر القادری کر رہے ہیں اس کو فی الوقت سمجھنا یا اس کی امید رکھنا وہ آئیڈیلزم ہے جو کسی سحر انگیز ی کی بنیاد پر تو ضرور کھڑا ہوا دکھائی دے سکتا ہے تا ہم اس کی کوئی جڑیںہیں ابھی نہ وجود!!!
میاں نواز شریف اور عمران خان کے لئے کم از کم ایک ایک بات قابل غور ہے ،میاں نواز شریف کا اپنے ممبران اسمبلی سے رویہ محمودوایاز کو ایک صف میں کھڑا دیکھنے والا نہیں، رشتے داروں، عزیزوں، بٹوں، خواجوں اور ڈاروں کا جہاں اور ہے ’’کھمبوں‘‘ کا جہاں اور، رفتہ رفتہ یہ احساس ن لیگ کے ’’کھمبوں‘‘میں بھی سرایت کر رہا ہے اور فرسٹریشن مہنگائی کی سی تیزی سے بڑھ رہی ہے یہی ’’کھمبے‘‘ اگر ڈگمگا گئے تو ن لیگ کی ساری تاروں کا سرکٹ ’’ شارٹ‘‘ ہو جائے گا۔ آخر بانس رہے گا نہ بانسری، یہ وہ ’’اوورویٹ‘‘ کیفیت ہے جو میاں نواز شریف کو عرش سے فرش پر لا سکتی ہے۔ پس میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف اپنی اپنی پالیسیوں اور کابینہ میں کھمبوں، عقل مند اور کارکن کھمبوں کے کھڑے اور مستحکم رہے، اچھے اور برے وقت میں پارٹی کے لئے کھڑے رہے کہ عزم اور استقلال سے استفادہ کریں، اور رشتے داروں کے لئے کچھ دن آرام کی تجویز کو بروئے کار لائیں… ورنہ !!! … ورنہ ،جلد کسی نئے سابقے و لاحقے کے ساتھ کوئی مسلم لیگ پھر سے جنم لے سکتی ہے۔
عمران خان کی خدمت میں قابل غور گزارش یہ ہے کہ قریشی اور ہاشمی صاحبان آزمودہ کار ناکام سیاستدان ہیں اور صرف ان سے ’’نیا پاکستان‘‘ ممکن نہیں۔ آپ اکیلے ہیں آپ کے پاس اپنی ٹیم نہیں ابھی اسد عمروں کی تعداد بہت کم ہے۔ کوئی جہانگیر ترین ہو راجہ سرور یا وزیر اعلیٰ خٹک یہ سبھی روایتی سیاست یعنی پی پی پی و ق لیگ و آلودہ سیاسی راویات کے تربیت یافتہ ہیں، ابھی دیر لگے گی! 14اگست کے بعد کوئی حکومت فی الحال نہیں بدلنے والی عمران مارچ کی اہمیت ضرور ہو گی، مقاصد رائیگاں نہیں جائیں گے بشرطیکہ عمران خان غصے کی کیفیت سے باہر نکل آئیں اور میز پر بیٹھ جائیں۔ اگر عمران خان اور میاں نواز شریف نے اپنی ضرورت سے زیادہ وفاداروں کو پس پشت ڈال کر احسن فیصلے نہ کئے تو جمہوریت کو کوئی خورشید شاہ یا محموداچکزئی نہیں فوج ہی تحفظ دے پائے گی۔ حالات و واقعات اور سیاسی موسمی حالات کا اشارہ یہی ہے کہ، فوج موجودہ جمہوریت کو پٹری پر رکھنا چاہتی ہے لیکن جمہوریت پسند سیاست دان نہیں ذرا سوچئے!!! اور پاک فوج کا جمہوریت کو فروغ دینے کا پکا وعدہ ہے جی چودھری برادران قوت اور وقت ضائع نہ کریں!!!