طاہرالقادری کی تخریبی‘ فسطائی سیاست کے مضر اثرات اور عمران خان اور جمہوریت سے وابستہ دوسرے سیاست دانوں کی ذمہ داری…ریاست کے اندر ریاست کا ایجنڈا رکھنے والوں کو انکے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے

بارش اور حکومتی سخت اقدامات کے باوجود ادارہ منہاج القرآن کے پلیٹ فارم پر ڈاکٹر طاہرالقادری کے اعلان کردہ ’’یوم شہدائ‘‘ کا رنگ تو جم گیا البتہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنوں کے پولیس تھانوں پر بلوئوں‘ تشدد‘ گھیرائو جلائو اور توڑ پھوڑ پر مبنی اقدامات سے تین پولیس اہلکاروں کے جاں بحق ہونے‘ سی پی او سمیت 72 پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے اور اسی طرح 25 پولیس اہلکاروں کو اغواء کرکے ادارہ منہاج القرآن میں یرغمال بنانے کے اقدام سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی فسطائی سیاست کا چہرہ ضرور بے نقاب ہو گیا ہے چنانچہ ملک کا ہر دردمند شہری یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ اگر ڈنڈے کے زور پر ریاست کے اندر ریاست بنانے والی اس سیاست کو فروغ دینے کی اجازت دی گئی تو ملک خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا جائیگا۔ اس حوالے سے تقریباً کسی بھی سیاسی اور عوامی حلقے کی جانب سے گھیرائو جلائو اور قتل و غارت گری پر مبنی ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاست کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا جبکہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی میں بدلنے اور اپنے کارکنوں کو جتھہ بند ہو کر پولیس تھانوں پر حملے کرنے کے اعلانات کو عملی جامہ پہنا کر ادارہ منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنوں اور انکی قیادتوں نے جس تخریبی سیاست کی بنیاد رکھی ہے‘ اس کا خمیازہ قوم کو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچنے کی صورت میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ اس تناظر میں جن قوتوں کی حمایت حاصل ہونے کا تاثر دے کر ڈاکٹر طاہرالقادری اپنی تخریبی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں‘ یہ ان کیلئے بھی لمحۂ فکریہ ہے کہ انکے کندھے پر بندوق رکھ کر طاہرالقادری ملک کی سالمیت کیخلاف کس کے ایجنڈے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کا تقاضا ہے کہ متعلقہ مقتدر قوتیں طاہرالقادری کے حوالے سے نہ صرف اپنے مؤقف کی وضاحت کریں بلکہ انہیں شٹ اپ کال بھی دیں جبکہ گزشتہ روز کے قتل و غارت گری اور گھیرائو جلائو کے واقعات پر قانون و انصاف کی عملداری کا تقاضا بھی بروئے کار لایا جانا ضروری ہے جس کیلئے لاہور ہائیکورٹ کے ان ریمارکس کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اہلکاروں سے اسلحہ چھیننا کون سا انقلاب ہے۔ اگرچہ طاہرالقادری اور انکے ساتھ ساتھیوں کیخلاف تین پولیس اہلکاروں کے قتل کے الزام میں لاہور اور اوکاڑہ کے مختلف پولیس تھانوں میں مقدمات درج کئے جا چکے ہیں تاہم ایسی تخریبی سیاست کا سختی سے توڑ کرنا ضروری ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کی جانب سے گزشتہ روز یوم شہداء کی اختتامی تقریب میں جو منہاج القرآن سیکرٹیریٹ کے اندر منعقد ہوئی‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم متحدہ کے قائدین کی موجودگی میں انقلاب مارچ کے اگلے مرحلے کا اعلان کیا گیا ہے جس کے تحت وہ ممکن ہے عمران خان کے حکومت مخالف آزادی مارچ میں شامل ہو کر اسے بھی اپنے حق میں کیش کرانا چاہتے ہونگے۔ تاہم اب عمران خان اور حکومت مخالف دوسری سیاسی جماعتوں کے قائدین کو تعمیری اور تخریبی سیاست میں حدِفاصل قائم کرنا ہو گی اور اگر عمران خان کی حکومت مخالف تحریک تخریبی ایجنڈا رکھنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں ٹریپ ہو گئی تو اس سے جمہوریت کے ڈی ٹریک ہونے اور ملک میں جرنیلی آمریت کے مہیب سائے طاری ہونے کی ذمہ داری عمران خان اور طاہرالقادری کی تخریبی سیاست کا حصہ بننے والے دوسرے سیاست دانوں بشمول چودھری برادران پر بھی عائد ہو گی۔ تحریک انصاف کی کورکمیٹی نے گزشتہ روز اپنے اسلام آباد کے اجلاس میں 14 اگست کو ہر صورت آزادی مارچ کرنے کا اعلان کیا ہے تو تحریک انصاف کے قائدین کو اس مارچ کو تشدد اور تخریب کی سیاست سے دور رکھنے کی حکمت عملی بھی طے کرنی چاہیے۔ حکومت کو بھی اب پہلے جیسی بے تدبیری کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے اور تحریک انصاف کو آزادی مارچ کیلئے فری ہینڈ دے دینا چاہیے‘ بصورت دیگر سیاسی تلخی کے کسی ماورائے آئین اقدام پر منتج ہونے کی ذمہ داری سے حکمران جماعت بھی نہیں بچ سکے گی۔
منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے ڈنڈا بردار مشتعل کارکنوں کے پولیس تھانوں پر بلوئوں‘ پولیس اہلکاروں اور انکی گاڑیوں پر حملوں کے 9اگست کے واقعات کے پیش نظر صوبائی حکومت نے سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے کل  10 اگست کو لاہور ملتان ہائی وے پر ٹھوکر کے پاس کنٹینر لگا کر لاہور آنیوالی ٹریفک روک دی تھی جبکہ فیصل آباد اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں کریک ڈائون کرکے منہاج القرآن اور عوامی تحریک کے کارکنوں کی وسیع پیمانے پر گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں جس کے باعث یوم شہداء میں شرکت کیلئے عوامی تحریک کے کارکن لاہور پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب سے لاہور آنیوالی مختلف شاہراہوں پر پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں آنکھ مچولی کا سلسلہ دن بھر جاری رہا اور کچھ کارکن لاہور پہنچنے میں کامیاب بھی ہوئے تاہم یوم شہداء کی اختتامی تقریب کا رنگ نہ جم سکا جس کے پنڈال میں بارش کا پانی جمع ہونے سے کرسیاں اور سٹیج تک نہ لگ سکی چنانچہ ادارہ منہاج القرآن کے جو خواتین و مرد کارکن منہاج القرآن سیکرٹیریٹ میں پہلے سے موجود تھے‘ ڈاکٹر طاہرالقادری سے انہی سے اور بعدازاں میڈیا سے خطاب کرکے دوسری جماعتوں کے قائدین کا یوم شہداء میں شمولیت پر شکریہ ادا کیا اور پھر انقلاب مارچ کے اگلے مرحلے کا اعلان کیاجس کیلئے وہ باتھ روم اور بیڈروم کی سہولت کے ساتھ ایئرکنڈیشنڈ کنٹینر پہلے ہی تیار کرا چکے ہیں۔
گزشتہ روز عوامی تحریک کے کارکنوں نے بھیرہ انٹرچینج پر قبضہ کرکے وہاں تعینات پولیس اہلکاروں پر ہلہ بول دیا تھا جس کے نتیجہ میں ایک پولیس اہلکار موقع پر ہی جاں بحق ہو گیا جبکہ لاہور میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے بہیمانہ تشدد سے بری طرح زخمی ہونیوالا پولیس کانسٹیبل بھی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہو گیا۔ بھیرہ میں عوامی تحریک کے مسلح کارکنوں نے پولیس گاڑیوں پر پٹرول بم حملے بھی کئے جس سے 50 پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور دس پولیس گاڑیاں جل کر بھسم ہو گئیں۔ گزشتہ روز لاہور میں منہاج القرآن سیکرٹیریٹ کے اردگرد کا علاقہ بھی میدان جنگ بنا رہا اور منہاج القرآن کے کارکنوں نے 25 پولیس اہلکار اغواء کرکے منہاج القرآن سیکرٹیریٹ میں یرغمال بنالئے۔ اس طرح انہوں نے اپنے قائد ڈاکٹر طاہرالقادری کے 3اگست کے ان احکامات کی پوری طرح تعمیل کی کہ جتھے بند ہو کر پولیس تھانوں پر دھاوے بول دو اور وہاں سے پولیس اہلکاروں کو اٹھا کر منہاج القرآن سیکرٹیریٹ میں لے آئو۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنے 3 اگست کے خطاب میں قصاص کا فلسفہ پیش کرتے ہوئے سانحہ ماڈل ٹائون میں جاں بحق ہونیوالے اپنے 15 کارکنوں کے بدلے 15 پولیس اہلکاروں کو قتل کرنے کا حکم بھی اپنے کارکنوں کیلئے صادر کیا تھا اور بھیرہ انٹرچینج پر حملے میں عوامی تحریک اور منہاج القرآن کے کارکنوں نے دو پولیس اہلکاروں کی جان لے کر اپنے قائد کے اس حکم کی بھی تعمیل کی۔ اس تناظر میں قانون کی نگاہ میں ڈاکٹر طاہرالقادری تین پولیس اہلکاروں کے قتل کے مقدمہ میں مرکزی ملزم نامزد ہونگے جبکہ ملک میں خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے جس کی قانون و آئین کی عملداری میں کسی بھی مہذب معاشرے میں اجازت نہیں دی جا سکتی۔
اگرچہ حکومت نے خود بھی بے تدبیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے طاہرالقادری کے اعلان کردہ یوم شہداء سے چار روز قبل ہی پورے پنجاب میں عملاً کرفیو کی صورتحال پیدا کرکے عوامی تحریک اور ادارہ منہاج القرآن کے کارکنوں کو اشتعال انگیز کارروائیوں اور ڈاکٹر طاہرالقادری کو مزید زہر افشانی کا موقع فراہم کیا جس سے شہریوں کو بھی جگہ جگہ لگائے گئے پولیس ناکوں‘ پٹرول پمپ اور سی این جی گیس سٹیشن بند ہونے اور ان اقدامات کی بنیاد پر پبلک ٹرانسپورٹ کے غائب ہونے سے سخت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم بے تدبیری سے کئے گئے ان حکومتی اقدامات کے ردعمل میں گھیرائو جلائو‘ تشدد‘ توڑ پھوڑ‘ بلوئوں اور قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کرنے کی بھی کسی کو قانون قطعاً اجازت نہیں دیتا۔
حکومت مخالف سیاست دانوں کو تعمیری تنقیدی سیاست کا ضرور حق حاصل ہے‘ جس پر حکومت کو بھی کسی قسم کی قدغن  عائد نہیں کرنی چاہیے اور اپوزیشن کی جانب سے جن غلطیوں‘ کوتاہیوں اور غیرقانونی حکومتی اقدامات کی نشاندہی کی جارہی ہو‘ حکمران جماعت اور اتحاد کو اصلاحی اقدامات اٹھا کر ان غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہیے جس سے جمہوریت کی گاڑی ٹریک پر رہ کر استحکام کی منزل حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم اگر کوئی حکومت مخالف تحریک کی آڑ میں پورے سسٹم اور ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو تو اسکے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ہی قانون و آئین کی حکمرانی کو غالب کیا جا سکتا ہے‘ ورنہ کل کو کوئی بھی پریشر گروپ اٹھ کر بندوق اور بارود کے سہارے اور اپنی غنڈہ گردی کی بنیاد پر حکومتی ریاستی اتھارٹی کو غیرموثر بنا سکتا ہے اور اپنی من مرضی کا ایجنڈا مسلط کر سکتا ہے۔ ملک کے موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ سسٹم کو ڈی ٹریک کرنے کا ایجنڈا رکھنے والے عناصر کو کسی صورت انکے مقاصد میں کامیاب نہ ہونے دیا جائے۔ سیاست دانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہئیں کہ وہ اپنے اقتدار کی خاطر جس ملک میں اپنی سیاسی دکانداری چمکا رہے ہیں‘ اسکی سالمیت کو کوئی گزند نہ پہنچنے دیں۔ اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا‘ یا ماضی کی طرح ملک پر طویل عرصے کیلئے جرنیلی آمریت مسلط ہو گئی تو وہ اپنی حریصانہ سیاست کہاں چمکائیں گے۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...