دردِ دل جو تھا کبھی وجہ مباہات و شرف
بہر حسرت موجب صد عار ہے تیرے بغیر
مولانا ظفر علی خان اور مولانا سالک کی صحبتوں سے فیض پانے والے جناب مجید نظامی نصف صدی سے زائد عرصہ تک آسمان ِ صحافت پر درخشندہ ستاروں کی طرح چمکنے والے ایک شخص نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک ادارہ تھے۔مولانا ظفر علی خاںؒ کے بھائی نامور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر حمید احمد خاں، سابق وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی علامہ علائوالدین صدیقی ،پروفیسر عبدالبشیر آذری، ڈاکٹر ایم ڈی (محمد دین) تاثیر اور انگریزی زبان و ادب کے مشہور زمانہ پروفیسر اور برِصغیر میں قرآن پاک کا انگلش میں ترجمہ کرنیوالے پہلے مسلمان علامہ عبداللہ یوسف علی جیسی شخصیات کے اسلامیہ کالج میں آپ شاگرد رہے۔زمانہ طالب ِ علمی میں آپ نے عملی طور پر تحریک پاکستان میں اس طرح حصہ لیا کہ اسلامیہ کالج کے دو دو چار چار طلباء کے گروہ بن کر گلی محلوں اور دیہات میںعوام کو پاکستان اور مسلم لیگ کے حق میں راغب (Motivate)کرتے رہے۔ ڈاکٹر مجید نظامی کو اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے ایک برس گزر چکا ہے لیکن آج بھی وہ میدان ِ صحافت میں زندہ ہیںاور زندہ رہیں گے۔مجید نظامی لندن میں تھے روزنامہ زمیندار اورروزنامہ احسان بند ہو چکے تھے ان دنوں بالخصوص لاہور بلکہ پنجاب اور پاکستان میں روزنامہ نوائے وقت کا طوطی بولتا تھا اور ویکلی میگزین (Weekly Magazine)میں شورش کاشمیری کا ہفتہ وار چٹان بھی دلچسپی کے ساتھ مطالعہ کیا جا تا تھا۔ لاہور میں ’’چنگاری‘‘ وغیرہ دو تین اور اخبار بھی تھے جو صرف ضمیمے شائع کرتے تھے۔ روزنامہ نوائے وقت کی قیمت دو آنہ تھی جب کہ ضمیمے دو پیسے اور بعض اہم خبروں کے دنوں میں ایک آنہ کے عوض فروخت ہوتے تھے۔ حمید نظامی کی ناگہانی وفات سے قارئین ِنوائے وقت اور نوائے وقت کے سٹاف پر مُردنی چھا گئی تھی لیکن فوری طور پر مجید نظامی کی لندن سے آمد اور نوائے وقت کی پیشانی پر اُنکے نام نے قارئین اور سٹاف کے اجسام ِ خاکی میں روح پھونک دی۔ نوائے وقت ایک دن کیلئے بھی ڈائون نہیں ہوا۔
1962ء میں ایوب خاں نے قوم کو آئین دیا جس کیخلاف دانشوروں اور نوائے وقت نے سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔ عوام نے اس آئین کو لائل پور (فیصل آ باد) کا گھنٹہ گھر قرار دیا کہ لائل پور کے گھنٹہ گھر کی طرح ہر جانب سے آئین میں ایوب خان کی ذات ہی نظر آتی ہے۔ نامور شاعر حبیب جالب نے اس کیخلاف ایک نظم لکھی جس کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے۔
ہر شاخ پہ اُلّو بیٹھا ہے
انجام گلستاں کیا ہوگا
ایوب خان کے زمانے میں نوائے وقت پر حق و صداقت کی آواز کو دبانے کیلئے قد غن لگتی رہی۔ محترمہ فاطمہ جناح نے 1964ء میں اپوزیشن کی نمائندہ کے طور پر الیکشن میں حصہ لیا۔ مولانا مودودی نے فتویٰ جاری کیا کہ عورت کی حکمرانی اسلام میں جائز ہے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کے ذریعے محترمہ فاطمہ جناح کی بھر پور طریقے سے الیکشن مہم چلائی۔ محترمہ فاطمہ جناح کو غلام گردشوں نے شکست سے دوچار کرنے کیلئے دن رات ایک کر دیئے اورایوب خان کو کامیاب کروادیا۔یحییٰ خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی ڈاکٹر مجید نظامی نے تکبیر مسلسل جاری رکھی۔ ضیاء الحق بلکہ سول حکومتوں میں بھی حق بات’’بیانگ دہل‘‘ لکھنے پر نوائے وقت کے اشتہارات پر پابندیاں عائد ہوتی رہیں۔ صدر مشرف کے زمانے میں کئی ماہ تک نوائے وقت کیلئے سرکاری اشتہارات پر پابندی رہی۔ ایک موقع پر راقم کے سامنے کسی صحافی نے وزیر اطلاعات کو نوائے وقت کیلئے اشتہارات کی پابندی ختم کرنے کیلئے کہا تو انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا’’ ابھی دیکھیں گے‘‘ ہم نوائے وقت کو شترِ بے مہار کی طرح نہیں چھوڑ سکتے۔ مگر تمام پابندیوں ، دھمکیوں، حکومتی سازشوں اور رکاوٹوں کے باوجود ڈاکٹر مجید نظامی کے ارادے متزلزل نہیں ہوئے انکی ٹانگوں میں لغزش نہیں آئی۔ حضرت علامہ شاید ان کیلئے فر ما گئے تھے۔
دل زندہ و بیدار اگر ہو تو بتدریج
بندے کو عطا کرتے ہیں چشمِ نگراں اور
احوال و مقامات پہ موقوف ہے سب کچھ
ہر لحظہ ہے سالک کا زماں اور مکاں اور
اسلام آباد کے ایک ہوٹل کے ہال میں ایڈیٹرز اور صحافیوں کے ایک سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری شجاعت نے زرد صحافت کا ذکر کیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف مذکورہ سیمینار کی صدارت فرما رہے تھے۔نظامی صاحب نے اپنی تقریر میں چوہدری شجاعت کی جانب اشارہ کر کے کہا زرد صحافت کی بنیاد آپ کے لیڈر نے ڈالی ہے ان کو کہیں آج لفافہ دینا بند کر دیں تو آج ہی زرد صحافت ختم ہو جائیگی۔ اتنا بے باک اور جرأت مند صحافی اس زمانے میں نا پائید ہے۔ مجید نظامی نے نوائے وقت کو لاہور سے نکال کر راولپنڈی ، اسلام آباد، ملتان اور کراچی میں اسکے دفاتر قائم کر کے نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلا دیا۔نوائے وقت کی پالیسی میں کسی کی پگڑی اچھالنا اور کسی کو بلیک میل کرنا ہرگز شامل نہیں۔
دوستوں کے دوست ، سینکڑوں مستحق لوگوں کے سرپرست، کم گو، خوش اخلاق، سینہ کینہ و بغض سے خالی، نہایت خوبصورت اور دلپذیر انداز میں گفتگو کرنیوالے آسمان ِ صحافت کے درخشندہ ستارے ڈاکٹر مجید نظامی جولائی 2014ء میں اپنے خالق ِ حقیقی سے جا ملے۔ اور اس قدر یادیں پیچھے چھوڑ گئے کہ انکی زندگی کے ہر پہلو پر بہت کچھ تحریر کیا جا سکتا ہے۔ انکے بارے میں سینکڑوں کتب طبع ہو سکتی ہیں۔
دے ولولہ شوق جسے لذتِ پرواز
کر سکتا ہے وہ ذرہ مہ و مہر کو تاراج !
بہر حال بیسویں اور اکیسویں صدی کا مرد ِ حُر اور مجاہد صحافی قائداعظم اور علامہ اقبال کا شیدائی الفاظ کی حرمت کیلئے حکومتی ایوانوں سے ٹکرا جانے والا نابغہ روزگار ڈاکٹر مجید نظامی جیسا شخص آئندہ صدیوں بعد پیدا ہوگا۔
ولی دکنی کا زمانۂ حیات اُردو ادب میں ولی دکنی کا دور اور غالب کا زمانۂ حیات دورِ غالب کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی طرح بیسویں صدی کے آخری چار عشرے اور اکیسویں صدی کے پہلے دونوں عشرے صحافتی ادب میں مجید نظامی کے دور سے منسوب کیے جائینگے۔ صحافتی تاریخ کا یہ دور ہمیشہ صحافتی پیشہ کی جرأت مندانہ حرمت کا دور کہلائے گا۔