قصور زیادتی سکینڈل: 30 ویڈیو کلپس میں 10 ملزموں کی شناخت‘ 7 کا اعتراف۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کا نوٹس---- معاشرے کو اخلاقی انحطاط سے بچانا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے

Aug 11, 2015

اداریہ

قصور میں جنسی سکینڈل میں گرفتار 7 ملزموں نے اعتراف جرم کر لیا ۔ پولیس کے مطابق ملزموں نے بچوں سے زیادتی اور ویڈیوز بنانے کے علاوہ والدین کو بلیک میل کرنے کا بھی اعتراف کیا ہے۔مرکزی ملزم حسیب عامر نے بیان میں اعتراف کیا کہ بچوں سے زیادتی کی، ویڈیو کلپس بنائے اور والدین کو بلیک میل کر کے رقوم بھی حاصل کیں۔ ملزموں سے برآمد 30 کلپس میں سے 10 میں ملزموں کی شناخت ہوگئی۔متاثرہ بچوں کے لواحقین کا کہنا ہے کہ اس معاملے کی تحقیق فوج کو کرنا چاہئے۔ مقامی مسجد کے 60 سالہ بزرگ امام نے ’’دی نیشن‘‘ کو بتایا کہ متاثرہ بچوں کی تعداد 300 سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ ہم 7 ماہ سے اس پر احتجاج کر رہے تھے۔ پولیس نے اس حوالے سے اعلان کرنے پر انہیں گرفتار کر کے تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔ ایک دوسرے امام مسجد نے کہا کہ متاثرین کو پولیس کی تحقیقات پر اعتماد نہیں ہے۔ گائوں کی تینوں مساجد کے آئمہ نے کہا متاثرین میں بچیاں بھی شامل ہیں تاہم گائوں والوں نے بچیوں کے کیس درج نہ کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا ہے۔ ایم پی اے شیخ وسیم اتوار کی رات پہلی مرتبہ گائوں پہنچے۔ اس موقع پر بعض اہل علاقہ نے مجرموں کو تحفظ دینے کی کوشش کرنے پر حکومت کیخلاف احتجاج بھی کیا۔

سیکنڈل منظرعام پر آنے کے پہلے روز سے پولیس اور حکومت اسے دبانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ پولیس کے اس سکینڈل میں ملوث ہونے میں کوئی شک نہیں رہ گیا۔ مقامی لوگ تو تھانے کے سٹاف سے لے کر ڈی پی او تک کو مجرموں سے بھتہ وصولی میں ملوث قرار دیتے ہیں۔ مقامی لوگوں نے جمعہ کو قصور پریس کلب کے سامنے احتجاج کا پروگرام بنایا تو کوریج کیلئے مقامی میڈیا کے لوگ نہیں آئے۔ یہ لوگ عموماً رپورٹنگ میں پولیس اور مقامی سیاست دانوں کی خواہش کو مدنظر رکھتے ہیں۔ مذکورہ سکینڈل بھی دی نیشن کے ڈپٹی ایڈیٹر رپورٹنگ کی سربراہی میں حسین خانوالا گائوں پہنچ کر بے نقاب کیا گیا تھا۔ متاثرہ خاندانوں کے احتجاج کو کور نہ کرنے کا جواز مقامی صحافی یہ پیش کرتے ہیں کہ پولیس نے کہا تھا قومی مفاد میں اس شرمناک واقعہ کی کوریج نہ کی جائے۔
انسانیت کو شرما دینے والے جرائم کا ارتکاب ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی ہوتا ہے مگر قصور میں جس طرح سے گھنائونا کاروبار ہوتا رہا اور سینکڑوں خاندانوں کی عزت خاک میں ملائی گئی اسکی مثال نہیں ملتی۔ اس سکینڈل سے ملک کی بدنامی ہوئی‘ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچے اور والدین عزت کی خاطر بلیک میل ہوتے رہے جس سطح پر یہ گھنائونا کاروبار کئی سال سے جاری تھا‘ یہ ممکن نہیں مقامی سیاست دان اس سے لاعلم ہوں۔ پولیس کا اس معاملے میں کردار دلال سے کم نہیں رہا۔ جو دادرسی کیلئے آنیوالوں کو بھگا دیتی تھی اور امام مسجد کو آواز بلند کرنے پر گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا۔ مقامی سیاست دان سیاسی مصلحتوں کے باعث خاموش رہے۔ ان والدین کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جو بالآخر اس ظلم‘ جبر اور بربریت کیخلاف تمام مصلحتوں سے بالاتر ہو کر مجرموں کیخلاف گھروں سے نکل آئے۔ قومی میڈیا نے اپنا کردار ادا کیا نوائے وقت گروپ نے اس معاملے میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا جبکہ حکومتی سطح پر اب بھی سست روی نظر آتی ہے۔
سراج الحق اور محمودالرشید کے بعد ریحام خان بھی متاثرین کے پاس جا چکی ہیں جبکہ خادم پنجاب کیلئے قصور بھی دلی بن گیا ہے۔ وہ ریپ کے کیسوں کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں‘ متاثرہ خاندانوں کے پاس جا کر افسوس کرنا ان کا معمول ہے مگر وہ ابھی تک قصور جا کر متاثرہ خاندانوں سے نہیں ملے۔ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ فریقین کا مک مکا ہے‘ میڈیا خواہ مخواہ اچھال رہا ہے۔انکے بقول ایسا کوئی جرم سرزد ہوا ہی نہیں۔ ایسے جرائم جن سے معاشرہ اخلاق باختہ ہو رہا ہو‘ کیا مدعی اور ملزموں کو مک مکا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ مک مکا بااثر لوگوں اور پولیس کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ صوبائی وزیر قانون کی سوچ سامنے آگئی ہے۔ اگر پولیس بھی اسی سوچ سے رہنمائی لے رہی ہے تو اسکی طرف سے کیس دبانے کی کوششوں پر اچنبھا نہیں ہونا چاہیے۔
وزیراعظم میاں نوازشریف نے ہدایت کی ہے کہ مجرموں کو نشان عبرت بنا دیا جائے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے حسب معمول آئو دیکھا نہ تائو‘ معاملے کی حساسیت کا جائزہ لیا نہ متاثرین کی اشک شوئی کیلئے قصور گئے‘ لاہور ہی سے واقعہ کی جوڈیشل انکوائری کا اعلان کر دیا۔ تحریک انصاف نے بھی پھرتی دکھائی‘ ہائیکورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ جوڈیشل کمیشن کی ضرورت ہے نہ ہائی کورٹ میں جانے کی‘ یہ سنگین جرم ہے جس پر دہشت گردی کی دفعات ہی لگتی ہیں۔ کیس میں کوئی پیچیدگی نہیں۔ ملزم اعتراف جرم کر چکے ہیں‘ انکے جرم کے ثبوت ویڈیوز کی صورت میں موجود اور واقعاتی شہادتیں بھی دستیاب ہیں۔ سول سوسائٹی کے دبائو پر پولیس کو بھی متحرک ہونا پڑیگا۔ کیس اور مجرم برسوں اور مہینوں میں نہیں چند دنوں میں منطقی انجام تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔
یہ سکینڈل ہولناک اور شرمناک ہے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے بھی حیا آتی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے‘ اسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ نوجوان نسل کو اخلاقیات کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیلنے کی بھی گھنائونی سازش ہے جس میں مغربی دنیا اور سوشل میڈیا کے مخصوص مفادات کے حامل طبقات سرگرمِ عمل ہیں۔ اس میں شرمانے اور دفاعی پوزیشن پر جانے کی ضرورت نہیں‘ جن بچیوں کے والدین نے خاموشی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ وہ فیصلے پر نظرثانی کریں۔ انکے اس اقدام سے کئی درندے اور بھیڑیے سزا سے بچ کرمعاشرے میں گند پھیلاتے رہیں گے‘ ان کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ریحام خان کہتی ہیں کہ ایسے انسانیت سوز واقعات خیبر پختونخوا اور لاہور میں بھی ہوتے ہیں۔ الٰہ آباد اور اٹک میں بھی ایسے دلدوز اور ننگ انسانیت واقعات کی خبریں آئی ہیں۔ یہ جہاں کہیں بھی ہوں‘ مجرموں کو معاف نہ کیا جائے۔ وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا کہ کئی غیرملکی سفارتخانے پاکستان میں جنسی بے راہروی کو ہوا دے رہے ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے کسی ملک کا نام نہیں لیا اور اگلے روز کوئی سفارتخانہ بند کیا گیا نہ کسی ملک کو انکے سفارتخانے کو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر خط لکھ کر احتجاج کرتے ہوئے نوٹس لینے کی خبر سامنے آئی۔ حکمرانوں کو قومی غیرت کے تقاضوں کو مدنظر ضرور رکھنا چاہیے۔
معاشرے کو سکینڈل میں ملوث درندوں اور انکی پشت پناہی کرنیوالوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اسکے ایک ایک کردار کو عبرت کا نشان بنانے کی ضرورت ہے جس کی ہدایت وزیراعظم نے خود کی ہے۔ وزیراعظم اس کیس کی لمحہ لمحہ کی پیشرفت پر نظر رکھیں‘ اسکے ساتھ اپنے ہاکس کو بھی لگام دیں جو مک مکا کی بات کرکے کیس کو بگاڑ رہے ہیں۔ ایسے جرائم کا تو شروع میں سختی سے خاتمہ کردینا چاہیے تھا مگر پولیس کی پشت پناہی سے ایسے گھنائونے جرائم کئی سال سے ہو رہے تھے‘ مجرموں کی پشت پناہی کرنیوالے پولیس حکام سے بھی کوئی رعایت نہ کی جائے۔ حکومت کی گورننس کیلئے یہ ٹیسٹ کیس ہے اخلاقی اعتبار سے انحطاط پذیر معاشرے کو سنبھالنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ حکمران اس کیس میں انصاف کے تقاضے پورے کریں اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں۔ میڈیا کو رگیدنے کے بجائے جرائم کی بیخ کنی کیلئے اسکے فعال کردار پر اسکے مشکور ہوں اور معاونت لیں۔

مزیدخبریں