اسلام آباد+ لاہور (نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار) سینٹ، قومی اسمبلی اور خیبر پی کے اسمبلی نے قصور کے واقعہ پر مذمتی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کرلی ہیں اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ سینٹ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ ایوان قصور میں جنسی تشدد کے واقعہ کی شدید مذمت کرتا ہے۔ واقعہ میں ملوث افراد کو سخت ترین سزا دی جائے۔ حکومت متاثرین کو انصاف فراہم کرے۔ ایوان قصور کے متاثرہ بچوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ چیئرمین سینٹ رضا ربانی نے واقعہ کی تحقیقات کا معاملہ فنکشنل کمیٹی کرائے۔ انسانی حقوق کو بھیجتے ہوئے ہدایت کی کہ کمیٹی ضروری قانون سازی کے لئے اپنی سفارشات پیش کرے۔ انہوں نے کہاکہ بحث ہی نہیں قانون سازی ضروری ہے۔ ایوان بالا کے اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کی سینیٹر نسرین جلیل نے قصور میں بچوں سے زیادتی کے واقعہ کے خلاف قرارداد پیش کرنے کے لئے قواعد معطل کرنے کی تحریک پیش کی۔ ایوان نے تحریک کی منظوری دیدی جس کے بعد انہوں نے قرارداد پیش کی۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سینٹ قصور کے علاقہ حسین والا میں بچوں سے زیادتی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ گھنا?نے واقعہ میں ملوث عناصر کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ واقعہ کے مجرموں سخت سزائیں دی جائیں۔ ایوان بالا میں سینیٹرز نے قصور واقعے میں ملوث ملزمان کو سخت ترین سزائیں دینے اور ملزموں کی پشت پناہی کرنے والوں کو بھی گرفتار کرکے سزائیں دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ سینیٹروں نے کہا کہ گزشتہ 7 سال سے یہ گھنا?نا فعل ہو رہا تھا علاقے میں موجود پولیس اور دیگر ایجنسیوں کے کارندے کیوں خاموش رہے تحقیقات کی جائے‘ مناسب قانون سازی کرکے اسلامی سزا?ں کو رائج کیا جائے۔ سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ قصور میں یہ گھنا?نا فعل گزشتہ کئی سال سے جاری تھا مگر وہاں پولیس اور دیگر ادارے مکمل طور پر خاموش ہیں اس کی تحقیقات بہت ضروری ہے اس میں ملوث انتظامیہ کے کرداروں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا چاہئے۔ سینیٹر الیاس بلور نے کہا کہ ایسے واقعات نہایت شرمناک ہیں ان میں ملوث ملزموں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دی جائیں۔ قصور کا واقعہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ سندھ اور دیگر شہروں میں یہ واقعات ہورہے ہیں۔ سندھ میں ہندو لڑکیوں کو اغوائ کرکے زبردستی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ قصور کے واقعہ میں ملوث افراد کو سرعام سزا دی جائے سینیٹر سسی پلیجو نے کہاکہ پنجاب کے وزیر داخلہ ثنائ ا? کے بیان سے پوری قوم کو دکھ پہنچا ہے معاملے کی مکمل تحقیقات بے حد ضروری ہیں قصورمیں جو کچھ ہوا اس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہئے۔ ان ملزمان کی پشت پر موجود سیاسی عناصر کو بھی بے نقاب کیا جائے۔ سینیٹر روبینہ خالد نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات بے حد ضروری ہیں اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے قانون سازی ہونی چاہئے۔ سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ ایسے واقعات افسوسناک ہیں اور اس کے ذمہ داروں کو سخت ترین سزائیں دی جائیں۔ اس میں کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ رعایت نہ برتی جائے سینیٹر ستارہ ایازنے کہاکہ یہ صرف قصور کا واقعہ نہیں ہے بلکہ ملک کے مختلف علاقوں میں ایسے واقعات ہورہے ہیں۔ عدلیہ کی کمزوری کی وجہ سے ایسے واقعات ہورہے ہیں اس کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ سینیٹر کلثوم پروین نے کہاکہ کیاہر معاملہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ حل کریں گے کیا ڈپٹی کمشنر ‘ ڈی پی او ‘ ایس ایچ اوز کی مرضی کی دوا ہے اس سے پہلے بھی واقعات ہوتے ہیں مگر آج تک کسی کو سزا نہیں دی گئی ہے سینیٹر نگہت مرزا نے مطالبہ کیا ہے کہ واقعات میں ملوث افراد کو فوری سزا دی جائے۔ فرحت ا? بابر نے کہاکہ گزشتہ سات سالوں میں ان ملزمان کو بچانے والے افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے سینیٹر امیر کبیر نے کہا کہ یہ واقعہ ہمارے ملک کے ماتھے پر دھبہ ہے اس مسئلے پر سیاست دانوں کو سیاست سے بالاتر ہوکر یکجا ہونا چاہیے۔ سینیٹر غوث نے کہا کہ ایسے ملزمان کو سخت ترین سزائیں دینے کیلئے قانون سازی ہونی چاہیئے اسلامی سزا?ں کا اطلاق کیا جائے۔ مولانا عطا الرحمن نے کہا کہ ہم اس واقعہ کی بھرپور مذمت کرتے ہیں میں کمیٹی کے ارکان سے مطالبہ کرتا ہوں کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے۔ ہمارے نوجوانون کو بے راہ روی کے راستے سے روکنے کیلئے بھی اقدامات ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں انٹرنیٹ ‘ ٹی وی اور دیگر میڈیا نے جو نوجوان نسل پر جو اثرات مرتب کئے ہیں اس کی روک تھام کیلئے بھی انسانی حقوق کمیٹی اقدامات کرے۔ دوسری جانب خیبر پی کے اسمبلی میں قصور کے واقعہ کیخلاف متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے۔ قرارداد کے متن میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وفاق پنجاب حکومت کو ملزموں کی گرفتاری اور سزا دینے کی ہدایت کرے۔ خیبر پی کے اسمبلی نے قصور کے واقعہ کو آرمی پبلک سکول کے واقعہ سے بھی بڑا واقعہ قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمودالرشید نے قصور کے واقعہ پر پنجاب اسمبلی میں توجہ دلا? نوٹس اور تحر یک التوائ کار جمع کرا دی جبکہ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر محمد سبطین خان نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں شہریوں کو سہو لتوں کی عدم فراہمی پر پنجاب اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرا دی۔ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمودالرشید نے دلا? نوٹس میں وزیراعلیٰ پنجاب سے سوال کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ پولیس کو اتنے پیمانے پر جرم ہونے کے باوجود علم نہیں ہوا؟ اسلئے یہ انداز لگانا درست ہے کہ مقامی پولیس بھی مبینہ طور پر اس عمل میں ملوث ہے۔ ڈپٹی اپوزیشن لیڈر محمد سبطین خان نے لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں کے ہسپتالوں میں شہریوں کو سہولتوں کی عدم فراہمی پر پنجاب اسمبلی میں تحر یک التوائ کار جمع کرا دی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکٹر سید وسیم اخترنے قصور میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعہ کے حوالے سے تحریک التوا پنجاب اسمبلی کے سیکرٹریٹ میں جمع کرادی۔ جس میں کہاگیا ہے کہ ’’بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ لیکن وطن عزیز میں قوم کے مستقبل کے ساتھ جو گھنا?نا کھیل کھیلا گیا ہے اس کو سن کر انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ ق لیگ کی رکن صوبائی اسمبلی خدیجہ عمر فاروقی نے پنجاب اسمبلی میں قصور سیکنڈل پر تحریک التوائے کار جمع کرا دی ہے۔ دوسری جانب قصور کے واقعہ پر بحث کیلئے قومی اسمبلی میں تحریک التوا کی اجازت نہ ملنے پر تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور شیخ رشید نے ایوان سے علامتی واک آ?ٹ کیا۔ شاہ محمود قریشی نے بات کرنے کی کوشش کی تو سپیکر نے انہیں روک دیا۔ سردار ایاز صادق نے کہاکہ قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اس معاملے پر تحریک التوا لے سکتا ہوں نہ توجہ دلا? نوٹس، نکتہ اعتراض پر بحث شروع کرا دی ہے جو بات کرنا چاہتا ہے ایوان میں کر سکتا ہے۔ قصور کا واقعہ صوبائی معاملہ ہے۔ ایوان میں تحریک التوا نہیں لائی جا سکتی۔ اپوزیشن ارکان نے علامتی ایوان سے واک آ?ٹ کریا اور ایوان مچھلی منڈی بنا رہا۔ ریاض پیر زادہ انہیں منا کر لے آئے۔ بعد ازاں ریاض پیر زادہ نے ایوان میں قرارداد مذمت پیش کی۔ دریں اثنائ قصور واقعے کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی متفقہ مذمتی قرارداد منظور ہو گئی ہے۔ مذمتی قرارداد وفاقی وزیر ریاض پیرزادہ نے پیش کی۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا ہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے جہاں ضرورت ہو قانون سازی کی جائے۔ ملزموں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ پنجاب حکومت ملزموں کو گرفتار کرے، واقعے کی فوری تحقیقات کرکے ملزموں کو کیفرکردار تک پہنچائے۔ صوبائی حکومت ملزموں کو گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں لائے۔ واقعہ میں ملوث ملزموں اور انکی پشت پناہی کرنے والوں کو گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔ سانحہ قصور پر بحث میں پی ٹی آئی کے شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر عارف علوی، شیریں مزاری، ایم کیو ایم کے عبدالرشید گوڈیل، جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ، پی پی پی کے عبدالستار بچانی، نفیسہ شاہ، مسلم لیگ (ن) کے میجر (ر) طاہر اقبال، عبدالغفار ڈوگر، جے یو آئی کی نعیمہ کشور، میر ظفراللہ خان جمالی و دیگر نے بحث میں حصہ لیا۔
قصور+ لاہور (نامہ نگار+ نمائندہ نوائے وقت+ وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) قصور ویڈیو سکینڈل میں قصور کی سیشن عدالت نے 5 ملزموں کی عبوری ضمانت قبل از گرفتاری خارج کردی جس کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ قصور ویڈیو سکینڈل کیس کے نامزد 5 ملزموں کو عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزموں نے عبوری ضمانت میں توسیع کی درخواست دائر کر رکھی تھی۔ ملزموں کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج قصور مسز ثمینہ حیات کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ مدعی کے وکلا نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزموں کیخلاف دہشت گردی کی دفعات میں اضافہ کیا جائے۔ دونوں فریقین نے عدالت میں اپنے دلائل دیئے جس پر پولیس نے 7 اے ٹی اے بھی شامل کرلی ہے۔ فیصلے کے بعد مقدمے کی باقی کارروائی دہشت گردی کی عدالت میں ہوگی۔ عبوری ضمانت خارج ہونے کے بعد گرفتار ملزموں میں سلیم اختر، عتیق الرحمن، تنزیل الرحمن، محمد یحییٰ اور علیم الرحمن شامل ہیں۔ دریں اثنائ پولیس نے ویڈیو سکینڈل میں ملوث دو ملزم گرفتار کئے ہیں۔ اس طرح گرفتار ملزموں کی تعداد 14 ہوگئی ہے۔ 7 ملزم جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، انکے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کردی گئی ہے۔ دو گرفتار ملزموں کو آج عدالت میں پیش کیا جائیگا۔ ایک ملزم ضمانت پر ہے اس کی ضمانت منسوخ کرانے کی کوشش کی جائیگی۔ قصور سکینڈل میں ملوث سات مفرور ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوسکے، پولیس کی جانب سے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس ابھی تک ملزموں کو گرفتارکرنے میں ناکام رہی ہے، علاقہ مکینوں نے کہا ہے کہ پولیس بااثر ملزموں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے واقعہ پر افسوس تو کیا لیکن دادرسی کیلئے نہیں پہنچے، علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ وہ انصاف کا مطالبہ کرتے ہیں۔ سکینڈل کے 7 ملزموں کے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کی گئی ہے۔ سات میں سے 4 ملزموں کو دو روزہ ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا گیا ہے۔ باقی 3 ملزموں کے ریمانڈ میں 4 روز کی توسیع کی گئی ہے۔ مرکزی ملزم حسیب عامر، فیضان مجید، نسیم شہزاد اور بشارت کے ریمانڈ میں دو روز کی توسیع کی گئی۔ ملزم عبدالمنان، علی مجید اور عثمان خالد کے ریمانڈ میں 4 روز کی توسیع کی گئی۔ ڈی پی او قصور رائے بابر نے کہا ہے کہ ویڈیو سکینڈل کے 13 ملزموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ بچوں سے زیادتی کے 30 ویڈیو کلپس ملے تھے۔ انکے ذریعے صرف 4 ملزموں کی شناخت ہوسکی ہے۔ بلیک میلنگ یا بھتہ خوری کے شواہد نہیں ملے۔ انصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں گے، کسی بے گناہ کو سزا نہیں ملے گی۔ ویڈیو کلپس ویب سائٹ پر لگائے جانے کی اطلاعات میں کوئی صداقت نہیں۔ وقائع نگار خصوصی کے مطابق سکینڈل میں نامزد ایک ملزم ہائیکورٹ کا ملازم نکلا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے ملزم تنزیل الرحمن کو نوکری سے معطل کردیا ہے۔ ملزم تنزیل الرحمن ہائیکورٹ میں سینئر کلرک کے عہدے پر کام کر رہا تھا۔ جنسی سکینڈل کے مقدمے میں نامزد ملزم کے طور پر نام آنے پر ملزم کو نوکری سے معطل کیا گیا۔ عدالت عالیہ کے ذرائع کے مطابق ملزم کے خلاف محکمانہ طور پرکارروائی کی گئی ہے تاکہ ملزم کو اپنے اوپر لگائے گئے الزامات ٹرائل عدالت میں ثابت کرنے کا پورا موقع ملے گا۔ میڈیا پر خبر آنے کے بعد اس سکینڈل کی باز گشت دور تک سنی جا رہی ہے، پوری حکومتی مشینری حرکت میں آنے پر بڑے بڑے نام سامنے آرہے ہیں۔ عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر پولیس اس واقعہ پر سنجیدہ کارروائی کرتی اور ملزموں کو بروقت گرفتار کرلیا جاتا تو متاثرین کو انصاف فراہم کیا جاسکتا تھا۔ ملزموں کو سخت حفاظتی انتظامات میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ مدعیان کے وکیل محمد لطیف سرا اور چودھری منیر احمد نے صحافیوں اور میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سیاسی دبا? کی وجہ سے پولیس افسر پر اعتماد یا یقین نہیں۔ مقدمہ کی تفتیش ان کے علاوہ کسی دیگر غیرجانبدار ایجنسی سے کروائی جائے، انصاف مہیا کرتے ہوئے مقدموں کی دہشت گردی کورٹ یا ملٹری کورٹ میں چالان بھجوایا جائے۔ ایس پی انوسٹی گیشن ندیم عباس نے کہا ہے کہ حسین خانوالا جنسی سکینڈل میں ملوث زیر حراست کو اس وقت تھانہ بی ڈویڑن میں بند ہیں، تفتیش میں گنہگار ثابت ہو گئے ہیں جنہیں ریمانڈ کے بعد جوڈیشل کردیا جائیگا۔ بعدازاں باقی ملزمان کی گرفتاری کے بعد تمام ملزموں کا چالان عدالت میں پیش کردیں گے۔ زیر حراست ملزموں سے ویڈیو اور موبائل کارڈز و دیگر ریکارڈ قبضہ میں لے لیا گیا ہے۔ حسین خانوالا کے جنسی سکینڈل کے متعلق حلقہ کے ایم پی اے احمد سعید خاں نے ان پر لگائے گئے الزامات کی سخت الفاظ میں تردید کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اس واقعہ کا بے حد افسوس ہے، چونکہ یہ میراحلقہ ہے اور یہ الزام بے بنیاد ہے کہ میں ملزمان کی پشت پناہی اور ساتھ دے رہا ہوں بلکہ میں تو متاثرین کے ساتھ ہوں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے شیخوپورہ رینج کے ریجنل پولیس افسر صاحبزادہ شہزاد سلطان نے کہا ہے کہ حسین والا میں بچوں کو مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کے مقدمے میں اب تک پولیس کے پاس 30 ویڈیوز آئی ہیں جن میں کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ ان بچوں کو زبردستی جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان 30 ویڈیوز میں 9 بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی ہے۔ ان ویڈیو کلپس کے ذریعے ہی اس میں ملوث 7 ملزمان کو حراست میں لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والے 7 ملزم پولیس کی تحویل میں ہیں جن کا مزید جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کیلئے انہیں عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔ دیگر 6 ملزموں ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے۔ جن چھ ملزموں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروا رکھی ہے وہ گرفتار ہونے والے ملزموں کے باپ اور چچا ہیں۔ کچھ ویڈیو جنسی زیادتی کا شکار ہونے والے بچوں نے پولیس کو فراہم کیں۔ زیادہ تر ویڈیوز ملزموں کے قبضے سے برآمد کی گئی ہیں۔ ویڈیو منظر عام پقصور سکینڈل : سینٹ ‘ قومی‘ خیبر پی کے اسمبلی کی متفقہ مذمتی قراردادیں‘ عبوری ضمانت مسترد ہونے پر پانچ ملزم گرفتار‘ مزید دو حراست میں لے لئے گئے