قصور (رائٹر) پاکستانی تاریخ کے اب تک کے دل دہلا دینے والے قصورکے جنسی زیادتی کے سکینڈل نے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا اور موجودہ حکومت کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے۔ دوسری طرف متاثرہ خاندان پولیس پر بھی سخت برہم ہیں۔ یہ واقعات پاکستان کے مرکزی صوبے پنجاب کے علاقہ قصور میں رونما ہوئے جو مقامی حکومت کی سیاسی قوت کا گڑھ ہے۔ قصور کے نواحی گائوں حسین خان والا میں جنسی زیادتی کے واقعات آج کل تمام اخباروں کی توجہ کا باعث بنے ہیں۔ اس اَمر پر وزیراعظم نواز شریف سے پارلیمنٹ میں استفسار کی توقع ہے۔ مقامی افراد نے رائٹرز کے نمائندوں کو بتایا کہ پولیس ان کی شکایات کو سنجیدگی سے نہیں لے رہی اور ان واقعات میں علاقے کے نامور افراد ملوث ہیں جن کو مضبوط پشت پناہی حاصل ہے۔ مقامی خاتون شکیلہ بی بی نے بتایا کہ جب وہ شکایت درج کروانے قریبی تھانے گئی تو ان کی شکایت درج کرنے کے بجائے ان کے بیٹے کو حراست میں لے لیا گیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس اس واقعے میں پوری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ تا ہم ضلعی پولیس افسر رائے بابر نے ان تمام بیانات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے گا اور صاف شفاف تحقیقات کی جائیں گے۔‘‘ اس سے قبل وزیراعظم نواز شریف نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ ملزموں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ تا ہم متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ ان کی شکایات کو پولیس خاطر میں نہیں لا رہی۔ ملزمان بچوں سے زیادتی کے دوران ویڈیوز بنا کر متاثرہ خاندان کو بلیک میل کر رہے ہیں۔ کئی ویڈیوز میں بچے خود کو کیمرے سے چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔