استنبول (اے پی پی + اے ایف پی + بی بی سی) ترکی کے دارالحکومت استنبول میں امریکی قونصل خانے پر 2 خواتین نے فائرنگ کر دی، پولیس کی جانب سے جوابی فائرنگ سے ایک فرار اور دوسری پکڑی گئی۔ برطانوی ریڈیو کے مطابق اس واقعے میں کسی کے ہلاک یا زخمی ہونے کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔ غیر ملکی مشنز کی سکیورٹی بڑھا دی گئی۔ ترکی کی حکومت اور کردستان شدت پسندوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تنازعات کے دوران ہونے والے سلسلہ وار حملوں بم دھماکوں میں سکیورٹی فورسز کے 9 ارکان ہلاک ہو گئے۔ ترکی کے جنوب مشرقی صوبے سرناک میں چار پولیس اہلکار سٹرک کنارے ہونے والے ایک بم دھماکے میں جبکہ کرد باغیوں کی جانب سے ایک فوجی ہیلی کاپٹر پر کی جانے والی فائرنگ کے نتیجے میں ایک اہلکار ہلاک ہو گیا۔ ترکی کے شہر استنبول میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا۔ اس سے پہلے استنبول میں واقع امریکی قونصل خانے پر دو مسلح افراد نے فائرنگ کی۔ ترکی کی بائیں بازو کے ایک گروپ نے امریکی قونصل خانے پر فائرنگ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ریولوشنری پیپلز لبریشن آرمی فرنٹ (ڈی ایچ کے پی سی) نامی اس تنظیم نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ دوسری جانب استنبول کے گورنر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ امریکی قونصل خانے پر حملہ کرنے والی دو میں ایک خاتون کو زخمی حالت میں گرفتار کر کے اس کے قبضے سے ایک رائفل اور دوسرا اسلحہ برآمد کیا گیا۔ اسے جیل بھیج دیا‘ تفتیش جاری ہے۔ ڈی ایچ کے پی سی نے حراست میں لی جانے والی خاتون کا نام خدیجہ عاشق بتایا ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کے رہنما نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ وہ کرد جنگجوؤں پر حملہ کر کے دولت اسلامیہ کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پی کے کے رہنما جمیل بیک نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خیال میں صدر رجب طیب اردگان کو کامیابیوں سے باز رکھنے کے لیے ’دولت اسلامیہ‘ کی کامیابی چاہتے ہیں۔ جمیل بیک نے بی بی سی کے جیار گل کو بتایا کہ ’ترکی کا دعویٰ ہے کہ وہ دولت اسلامیہ کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ لیکن در حقیقت وہ پی کے کے کے خلاف لڑ رہے ہیں۔‘ اردگان دولت اسلامیہ کے قتل عام کے پس پشت ہیں۔ ان کا مقصد کردوں کی پیش قدی کو روکنا ہے تاکہ وہ ترکی میں ترکیت کو فروغ دے سکیں۔