پنجاب میں انتخابی گہماگہمی‘ سندھ میں سکوت

الیکشن 2018ء کی انتخابی مہم کے نقارے پنجاب میں گونج رہے ہیں۔ سندھ کی حد تک پی پی‘ (ن) لیگ‘ تحریک انصاف‘ جماعت اسلامی یا متحدہ قومی موومنٹ اتنی فعال اورنمایاں نہیں جتنی کہ(ق) لیگ‘ پی پی‘ تحریک انصاف پنجاب میں نظرآتی ہیں۔ ویسے عمران خان نے 10 اگست کوسکھرمیں جلسے کا اعلان کرکے اپنے مخالفین بالخصوص پیپلز پارٹی کو ضرور چونکا دیا ہے۔ اسی ہفتے سکھر کے تاجر ر ہنما جاوید میمن نے پی ٹی آئی جوائن کی ہے اور کہا جارہا ہے کہ اس جلسے کیلئے زیادہ کوششیں بھی انکی ہی ہیں وہ ایک کامیاب شو کے ذریعے سکھرمیں انٹری دے کریہاں موجود اس خلاء کوپرکرنے کے خواہاں ہیں جو منقسم شہری مینڈیٹ کے باعث موجود ہے۔ سکھر میں پی پی اورمتحدہ شہری حدود میں موثر ہیں۔ دیہات میں فنکشنل لیگ کا بھی ووٹ بنک ہے۔ ویسے مہر گروپ‘ ناصرشاہ اور شیخ برادری بھی اپنی اپنی جگہ اہم ہیں۔ عمران خان کی سکھرآمد کے بعد توقع ہے کہ بالائی سندھ کے کچھ وڈیرے بدلتے حالات میں شاید اپنی حکمت عملی وضع کریں ‘ ویسے تو ممتاز بھٹو نے بھی اپنے سندھ نیشنل فرنٹ کا اجلاس حیدرآباد میں طلب کیا ہے۔ جس میں سیاسی مستقبل اورآئندہ کی صورتحال کی مناسبت سے فیصلے ہوںگے۔ سندھ کے کئی گھرانے اس وقت ’’تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو‘‘ کے مرحلے میںہیں‘ وہ پی پی سے خوش نہیں لیکن اس کا ساتھ دینا انکی مجبوری ہے۔ وہ علی الاعلان نوازشریف کو چیلنج کرکے اپناراستہ کھوٹا نہیں کرنا چاہتے کیونکہ منظر نامہ بدلنے پر ان کا اگلا ٹھکانہ فنکشنل لیگ یا تحریک انصاف نہیں (ن) لیگ ہی ہوگی۔ مرحوم پیرپگارا سیاسی جوڑ توڑ کے بادشاہ اورسیاسی حرکیات کے نبض شناس تھے لیکن فنکشنل لیگ کی موجودہ قیادت ان کی طرح فعال اور موثر نہیں‘ پھر عمران خان بھی ابھی تک سندھ کے طرز سیاست میں فٹ نہیں ہوسکے ہیں۔ ان کے صوبائی صدر نادر اکمل لغاری کی پی پی میں شمولیت کے بعد عارف علوی اس منصب پر براجمان ہیں۔ سکھر‘ خیر پور اور کئی اضلاع کا گزشتہ مہینے وہ دورہ کرچکے ہیں اور صوبائی حکومت کی ناقص کارکردگی کو انہوں نے نشانہ بھی بنایا تھا‘ لیکن ابھی تک کوئی بڑا نام انکے ساتھ نہیں آسکا ہے۔ لیاقت جتوئی کی شمولیت کے بعد کئی نام لئے جارہے تھے لیکن ایسا نہ ہوسکا‘ سندھی قوم پرست البتہ سڑکوں پر ہیں۔ جئے سندھ قومی محاذ کے سربراہ صنعان قریشی نے کہا ہے کہ سندھ کے حقوق کی جدوجہد میں کسی سے پیچھے نہیں رہیں گے۔ انہوںنے لاپتہ کارکنان کی بازیابی اور عدالتوں میں پیش کرنے کامطالبہ بھی کیا اور کہا کہ کراچی میں شہید بشیر قریشی کی سالگرہ میں عوام ضرور شرکت کریں‘ وہ ہالا میں دورے کے دوران مختلف شخصیات سے بات چیت کررہے تھے۔ اسی طرح سندھ ترقی پسند پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر قادر مگسی نے حیدرآباد‘ قنبر اور گھوٹکی اضلاع کا دورہ کیا اور کارکنان سے کہا کہ وہ الیکشن 2018 کی بھر پور تیاری کریں کیونکہ ستپ سندھ کے عوام کی نمائندہ قوم پرست جماعت ہے اور اسکی بنیادوں میں شہدا کا خون شامل ہے ہم نے ہمیشہ نسل پرستی‘ جاگیرداری‘ نجی جیلوں اور غیروں کی سندھ میں آباد کاری کو چیلنج کیا ہے اور اپنے منشور و موقف پراٹل کھڑے ہیں۔ انہوں نے کارکنان پرزور دیا کہ وہ عوام اور پارٹی کے درمیان پل کا کردار ادا کریںتاکہ سندھ دشمن قوتوں‘ وڈیروں‘ جاگیرداروں کا الیکشن سمیت ہر محاذ پر مقابلہ کیا جاسکے۔ اسی طرح جسقم کے دوسرے دھڑے کے سربراہ میر عالم مری نے بھی سائیں جی ایم سید کے آبائی قصبے سن میں اجلاس کیا اور الزام لگایا کہ سندھ کی قوم پرست تحریک کو کمزور کرنے کے لئے سازشیں کی جارہی ہیں۔ انہوں نے لاپتہ کارکنان کی آزادی کیلئے کوششیں تیزکرنے کا بھی اعلان کیا اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی بھی جو جلال محمود شاہ کی قیادت میں سرگرم ہے۔ اسی ہفتے فعال رہی۔ اس نے ٹھٹھہ سمیت کئی اضلاع میں ریلیاں نکال کر عوامی مسائل پر رائے عامہ کومتحرک کیا کم و بیش تمام قوم پرست گروپ اسی وقت پی پی کو ٹف ٹائم دے رہے ہیں۔ ایاز لطیف پلیجو نے بھی رانی پور میں عوامی اجتماع سے خطاب کیا اوردعویٰ کیا کہ پی پی سندھیوں کو بے وقوف بنا کرووٹ لیتی رہی ہے‘ لیکن اب ایسا نہیں ہوگا۔ انہوں نے عوام سے بھی کہا کہ وہ گونگے بن کرزندگی گزارنے کی بجائے وڈیروں کے خلاف بولیںاوراپنے غضب شدہ حقوق حاصل کریں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم نے کون سے نواز شریف کوووٹ دئیے ہیں جو اس کے خلاف بولیں۔ یہ ایک اشارہ بھی تصور کیا جارہا ہے کہ الیکشن 2018ء میں ایک بار پھر سندھی قوم پرست پی پی کے خلاف ممکنہ بڑے اتحاد کا حصہ بن سکتے ہیں۔ سندھی اخبارات کے ادارتی صفحات اورسندھ کے دانش وروں کے فورمز پر بھی پی پی کی کارکردگی زیر بحث ہے۔ سانگھڑ میں منعقدہ ایک سیمینار میں سندھ کے معروف دانش وروں چانڈیو کا کہنا تھاکہ جب سندھ کا بجٹ 300 ارب تھا‘ اس وقت بھی سندھ تباہ تھا اور آج ایک ہزار ایک ارب کا بجٹ ہونے کے باوجود صوبہ کی حالت بہتر نظر نہیں آرہی اسی سیمینار میں مقررین کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی پی ہو یا فنکشنل لیگ جسے اقتدار ملا اس نے سندھ کو لوٹا۔
سندھ کی حالت کب تبدیل ہوگی؟ چہرے بدلنے سے انقلاب آئے گا یا نظام کی تبدیلی سے عوام کوفائدہ ہوگا؟ بہت سے سوالوں کا جواب صرف ایک ہی دکھائی دیتا ہے کہ عوام الیکشن میں وڈیروں‘ جاگیرداروں کو مسترد کردیں لیکن ایسا موجودہ حالات میں ممکن نظر نہیں آتا۔ ایشوز پر آوازاٹھانے والے قوم پرست شکست کھاتے ہیں اورپورے پانچ برس اسمبلی میں گردن جھکا کر خموش بیٹھنے والے وڈیرے ہرمرتبہ جیت جاتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن