”دوستی کا عالمی دن“

Aug 11, 2017

مسرت قیوم

”فیصلہ“ غلط تھا تو ردعمل دینے میں اتنی تاخیر کیوں؟ تسلی سے نیا حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے کے بعد اپنی ہی حکومت کی موجودگی میں ریلی طے نہیں کر سکے ۔ پاور شو ہے یا؟ قصرِ اقتدار سے ”پنڈی “تک ”جی ٹی روڈ“ سے ”شاہدرہ“ تک اپنی حکومت ۔ کیا اِن کے خلاف مارچ ہے؟ اگر نہیں تو پھر للکار کِس طرف ہے ؟ ہدف کون ہے؟ نہ ماننے کے پیغامات کی ترسیل کِس جانب رواں ہے ؟ کیا ہیلی کاپٹرز کے سائے تلے ۔ بھر پور حکومتی وسائل ۔ پروٹوکول۔ پوری ریاستی مشینری کی مدد سے چلنے والا ”قافلہ“ ”عوامی عدالت“ ہے؟ یا چیلنج۔ وہ ادارے جو حکومت ، ریاست کے استحکام ، سالمیت، وقار کے تحفظ کی علامت ہیں آپکی بنائی حکومت کا حصہ ہیں۔”احتجاجی جلسے“، دھرنے، ریلیاں اور سب سے بڑھ کر کنٹینر سیاست کچھ بھی پسند نہ تھا۔ اِن رویوں کی سب سے زیادہ مخالف جماعت سڑکیں ماپنے کے طعنے ،تنقید ، ملامت کرنے والے خود سٹرکوں پر ”2 دن“ سے رینگ رینگ کر چلے آرہے ہیں۔ پاور شو کے بعد فیصلہ ”چیلنج“ کرنے کا پلان ہے۔ روڈ شو یا استقبالیہ اجتماعات ”لیڈر“ کے قد و قامت یا عوامی حمایت کا تعین نہیں کرتے بلکہ عمل، کام، کردار جیسی صفات تاریخ میں امر کرتی اور مٹاتی بھی ہیں۔
”میاں شہباز شریف“ واقعی مخلص ہیں ۔ چھوٹے بھائی کو امتحان میں نہ ڈالنے اور نا بالغ مشیروں کو فارغ کرنے کا بر وقت صائب مشورہ ”تہمینہ درانی“ نے درست خطوط پر خرابی کی نشاندہی فرمائی۔
چند سطروں پر مشتمل اتنی چھوٹی خبر، خبروں کے درمیان میں ، پورا صفحہ پڑھنے کے بعد نظر پڑے۔ گزشتہ اتوار کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں ”دوستی کا عالمی دن“ منایا گیا۔ دن منانے کا مقصد دوستی کے رشتوں کے ذریعہ امن کلچر کو فروغ دینا ہے ۔ خبر کے مطابق نجی و سرکاری تنظیموں کے زیر اہتمام آگاہی واکس و سیمینار منعقد ہوئے ۔ اِن فنکشنزکوکسی بھی تحریری یر برقی چینل سے شائع یا نشر نہیں ہوتے دیکھا ۔ جنگ کی تصویریں ، جرائم کی خبریں ، سیاسی کرپشن کے میگا سیکنڈلز یہ سب پہلے صفحہ پر وہ بھی نمایاں جگہوں اور شہ سر خیوں کے ساتھ ہماری اور عالمی برادری کی ترجیحات کا اندازہ لگانا سب بھی مشکل ہے۔
دن منانے کی صرف خبر جاری کی گئی یا واقعی منایا گیا ۔ اگر منایا گیا تو منانے کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کیا وعدے ہوئے ؟ تقاریر میں امن کے قیام کے لیے کیا اقدامات تجویز کیے گئے ؟ دوستی کے رشتے کو افراد یا ممالک تک فروغ دینے کے ضمن میں کیا لائحہ عمل ترتیب دیا گیا ؟ تمام سوالات کے جوابات میں لا علمی ہے۔ معلومات زیرو ہیں۔ ہاں کچھ ایسی باتیں۔ معلومات اِس خبر کے پہلو بہ پہلو ضرور پڑھی تھیں۔
”دوستی کے عالمی دن پر“ عالمی طاقت کا خیر سگالی پیغام ، امریکی فضائیہ کے طیاروں کی ”جزیرہ نما کوریا“ پر دوستانہ پروازیں۔ آسڑیلیا میں دہشت گردی کا منصوبہ ، 4افراد گرفتار ، صومالیہ میں لڑائی ، افریقی یونین کے”39 فوجی“ دوستی کو فروغ دینے کے دن ہلاک ، لیبیا میں جنگجوﺅں نے امن کو فروغ دینے کے واسطے لڑاکا طیارہ مار گرایا ۔امن کو فروغ دیتے یورپ کے دل ”جرمنی“ کے نائٹ کلب میں فائرنگ ، دہشت گردی تھی یا ذاتی جھگڑا۔ 2 افراد ”واصل امن“ ہوگئے۔ امن کی ہوائیں”موریطانیہ“ پہنچیں تو عام شہری کے ہاتھوں ”وزیر خزانہ“ کو جوتا کھانا پڑ گیا ۔ پابندیاں نئی ، وسیع جنگ کی تیاری تھی یا امن کلچر کی ترقی ۔ ”روسی صدر“ نے ایک ہی پر امن دستخط سے ”755 امریکی سفارتکار“ ملک بدر کر دئیے۔ اُسی دن مقبوضہ کشمیر سے افغانستان تک لہراتے امن کے پھریرے درجن بھر سے زائد انسانی وجود ہڑپ کر گئے ۔ دن گزر گیا مگر فروغ ترقی کا پہیہ رُکا نہیں ، چلتا رہا ۔ افغانستان ”3دن میں 3دھماکے“ امن کا منہ سفید کر گئے۔”مقبوضہ وادی“ نہتے انڈین فوجیوں کے ہاتھوں خون کا سرخ تالاب بن گئی۔ ایک کے بعد ایک نوجوان ہیں کہ مسلسل اس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرتے جارہے ہیں مگر ڈر کر دبک نہیں رہے۔ وادی ”امن کے ظالم بوٹوں“ تلے دبی سسک رہی ہے ۔ کوئی پُرسان حال نہیں ۔ پہلے مہینہ میں ۔پھر ہفتہ بعد ایک ہی نوجوان شہید ہوتا تھا اب ایک دن میں ”4-3“ ماﺅں کے لال پُرامن گولی کا نشانہ بن رہے ہیں مگر یورپ ، عالمی طاقتیں اتنی مصروف رہیں امن کا دن منانے میں کہ اِدھر رُخ انور نہ کیا۔ گولیاں ہیں کہ کڑیل وجود نگلتی جارہی ہیں ۔ قارئین سوچئیے! دنیا کا کوئی بھی خطہ جنگ ، کشمکش ، تصادم (اندرونی و بیرونی) تنازعات سے پاک ہے نہ محفوظ ۔ ہر طرف بے چینی ، انتشار ہے ۔ آگ ہی آگ دکھائی دیتی ہے کہیں بھڑکی ہوئی ، کہیں سُلگتی ہوئی حتیٰ کہ جہاں تھوڑا بہت امن ہے ۔ سکون ہے وہ بھی تپش محسوس کر رہے ہیں ۔ عالمی جنگوں کے بعد کا دور ”سرد جنگ ”کا فیز ”ایک طاقت“ کی پسپائی کے بعد ”دوسری قوم“ نے نیٹو کی چھتری تان کر دنیاپر اپنی دھاک بٹھا دی۔ جب چاہا ”مہروں“ کو بدل دیا ۔ مروا ڈالا ، بدترین ظلم ، جبر، دھونس دباﺅ کے پہلو بہ پہلو ایک اور طاقت پروان چڑھتی رہی۔ شکست خوردہ طاقت بھی خاموشی کے ساتھ اپنے زخم سیتی رہی۔ اب ”تجارتی جنگ“ کا دور شروع ہو چکا ہے۔ پہلی تمام جنگوں سے زیادہ ہولناک کیونکہ ”پیٹ“ کا معاملہ ہے اسلئے بے رحمی ، قطع تعلقی زیادہ ہوگی۔ اپنے اپنے معاشروں کو خوراک فراہم کرنے کےلئے زیادہ سنگین حربے استعمال ہونگے۔ آغاز بہت پہلے ہوچکا تھا اب نقطہ عروج ہے۔ پوری دنیا پر بالادستی کا خواب ”عظیم چین“ کے نعرے میں یقینی معلوم ہوتا ہے۔ ماضی کی دونوں سپر پاورز عسکری محاذوں کے علاوہ تجارتی بائیکاٹ ، سفارتی انخلاءجیسی کشمکش سے گزر رہی ہیں تو انجام دیکھنے کےلئے کسی جوتشی، نجومی کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے ۔
±قارئین ! اِ س عالم میں کہ ہر طرف جنگ ہے ۔ جنگ زدہ ماحول ہے ۔ چھوٹی چھوٹی جنگیں منظم ہو کر تیسری عالمی جنگ میں ڈھل رہی ہیں تو ایسے میں دوستی کا دن منانا۔ از حد احسن ، معقول فیصلہ تھا ۔ پر فیصلہ وہی خوش قسمت ہوتا ہے جو قبول کر لیا جائے ۔ دن منالیا ، اب منانے کا مقصد قبول کرنا چاہیے۔ اِسی میں بہتری ہے۔ دو لڑتے سانڈ واپس مُڑ جائیں تو بچت ہے۔ آگے بڑھتے رہیں تو سینگ ٹوٹیں گے۔ کیا خون کی بہتی لکیر پر امن کا سفید دائرہ کھینچا ممکن ہے؟ یورپ ہے یا پاکستان۔ کیا یہ فارمولہ قاعدہ اب ہر کسی کو پلے نہیں باندھ لینا چاہیے۔ تاریخ سے اب بھی مُضر ممکن ہے؟؟”2050ئ“ تک دنیا میں نابینا افراد کی تعداد تین گنا بڑھ سکتی ہے۔ ماہرین کے نزدیک اندھے پن کے شکار افراد کی تعداد ”ایک ارب پندرہ کروڑ“ تک بڑھنے کا خدشہ ،تمام مناظر جاری صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے یہ خبر کیا اطمینان کا باعث نہیں معلوم ہوئی۔ بہت سو ںکے نزدیک دنیا کی جو حالت آنکھوں والوں نے بنا دی ہے ۔ اچھا نہیں یہ لوگ ابتری ، فساد کو دیکھنے سے محفوظ رہیں گے ۔

مزیدخبریں