میں آپ کو کس طرح بتاﺅںکہ میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے اوراس نے مجھ سے گلے ملنے کی مقدور بھر سعی کی مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور نہ تھا۔1947ءمیں جب فسادات کی آگ بھڑکی تو میرے والد محترم قاضی سراج الدین سرہندی نے جو سرہند (ریاست پٹیالہ) کے ایک متمول تاجر تھے ،ہمیں اپنے ننھیال پٹیالہ بھیج دیا تاکہ ہم وہاں اپنے نانا مرحوم شیخ مہر علی کے پاس بحفاظت رہ سکیں کیونکہ وہ وہاں ایک پولیس افسر تھے۔ ہمیں سرہند سے گاڑی میں سوار کردیا گیا اور پٹیالہ ریلوے سٹیشن پر ہمارے نانا ہمیں لینے کے لئے موجود تھے۔ ٹانگہ میں سوار ہو کر گھر پہنچے۔ وہاں ایک دو روز امن اور چین سے گزارے۔ایک روز دوپہر کے وقت جبکہ دوپہر کاکھانا تیار ہورہا تھا تو اچانک گولیوں کی آواز سنائی دی اور ہمارے نانا نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہمیں بہت جلد یہ مکان چھوڑ دینا چاہئے کہ محلہ کے غیر مسلم لوگوں کے ارادے اچھے نہیں ہیں۔ اس صورت حال سے گھر بھر میں پریشانی اور اضطراب کی لہر دوڑ گئی مگر اس کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں تھا کہ یہ مکان چھو ڑدیا جائے اورکسی مسلم اکثریت والے علاقے میں پناہ لی جائے۔ابھی یہ مکان چھوڑنے کی تیاری ہو رہی تھی کہ ہمارے ماموں نے جو مکان کی بالائی منزل میں رہائش رکھتے تھے اور محکمہ پولیس میں ہیڈ کانسٹیبل تھے۔ یہ اطلاع دی کہ ایک پڑوسی نے ان کی طرف بندوق کانشانہ باندھنے کی کوشش کی مگر وہ جان بچا کر نیچے آگئے ہیں۔ایسی صورت میں مزید ایک لمحہ کے لئے اس مکان میں رہنا قرینِ مصلحت نہیں تھا۔اس لئے جملہ اہل خانہ مکان سے باہر نکل آئے باہر پولیس یا فوج کے کچھ جوان پہرہ دے رہے تھے۔ہم یہاں سے ایک دوسرے محلہ میں چلے گئے اور وہاں ایک واقف کار کے مکان میں پناہ لی ہم لوگ اس مکان کے ایک آخری کمرہ میں پناہ گزین تھے۔مالک مکان کسی ضرورت سے بالائی منزل پر گیا وہ کچھ دیر بعد خون میں لت پت پایا گیا۔خیال گزرا کہ یہ کسی بدبخت کی گولیوں کانشانہ بن گیا ہے۔اسی دوران میں گولیوں کی آواز بڑھتی گئی اور ہمیں مجبوراً ایک قافلہ کے ساتھ دوسرے محلہ میں ہجرت کرنا پڑی ۔ہم گھر سے جو معمولی سامان ہمراہ لائے تھے۔اس کا بڑا حصہ اسی مکان میں چھوڑ دیا گیا۔یہاں سے ایک اورجگہ پہنچے وہاں بدقسمتی سے عورتوں کو ایک علیحدہ بڑے کمرے میں رکھا گیا اورمردوں کو علیحدہ کردیا گیا۔ غیر مسلموں نے اس محلہ پر بھی حملہ کر دیا ۔جس حویلی میں ہم مقیم تھے اس کامالک نہایت نیک اورشریف مسلمان تھا اورپٹیالہ کے معززین میں اس کا شمار ہوتا تھا اس نے حالات کی نزاکت دیکھ کر تمام خواتین کو ہدایت کی کہ وہ غیر مسلموں کی چیرہ دستیوں اوران کے مذموم ارادوں سے بچنے کے لئے یہ طریقہ اختیار کریں کہ جب غیر مسلم حملہ آور مکان میں داخل ہوں تو مکان کے صحن میں سے گزرتی ہوئی بجلی کی ایک ننگی تار کو چُھو کرخود کو موت کے حوالے کردیں۔چونکہ محلہ میں گولیوں کی بوچھاڑ جاری تھی اس لئے کئی کمزور دل خواتین نے اس ہدایت پرعمل کرنا شروع کردیا ۔ہماری والدہ محترمہ بھی اس کے لئے تیار ہوگئیں،مگر اچانک انہیں یہ احساس ہوا کہ مرنے سے پہلے بچوں کو پانی ضرور پلانا چاہئے۔ وہ ہمیں لے کر پانی کے نل کی طرف گئیں کہ اچانک ہمارے ماموں کی نظر پڑی۔ وہ ہمیں دیکھ کر دیوانہ وار دوڑے اور ہم سب کو بُری طرح گھسیٹ کرایک اورجگہ لے گئے، اس وقت ہم اپنے نانا اوردوسرے اہل خانہ سے الگ ہوچکے تھے۔ رات اسی طرح گزری اگلے روز ایک اورجگہ منتقل ہوئے،وہاں نانا اوردوسرے اراکین کنبہ پھر مل گئے،اس جگہ بھی وہی حادثہ ہوا کہ غیرمسلموں کے حملہ کے خوف سے مالک مکان نے اپنے مکان کو آگ لگانے کا اعلان کردیا۔ ہم اپنی والدہ کے پاس اسی مکان کی بالائی منزل پر تھے۔یہ سُن کر عورتیں اور بچے بڑی تیزی سے سیڑھیاں اُترنے لگے۔اسی ریل پیل میں ہماری خالہ زاد بہن بُری طرح زخمی ہوگئیں (بعد میں وہ پاکستان آکر انتقال کرگئیں )اورجب ہم مکان سے باہر نکلے تو خالہ بھی فائرنگ کی زد میں آچکی تھیں۔انہیں اگرچہ شدید زخم آئے مگر ان کی جان بچ گئی،اسی دھکم پیل میں چھ سات روز گزر چکے تھے اوراب پٹیالہ شہر میں ہمارا آخری پڑاﺅ ”شیرانوالہ گیٹ“ تھا۔یہاں ہم دکانوں کے آگے کے ”پھٹوں“ پر پناہ گزین تھے۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں اپنے ماموں زاد بھائی کے ساتھ سیڑھیوں کے ذریعے ا س دکان کی چھت پر گیا تو وہاں ان گِنت لاشیں پڑی ہوئی تھیں اوردوسری دکانوں کی چھتیں بھی لاشوں سے اَٹی پڑی تھیں۔پھر اعلان ہوا کہ اگلے روز مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کے لئے بہادر گڑھ کیمپ میں بھیجا جائے گا ۔صبح سویرے گیٹ پر ایک ہجوم جمع ہوگیا تھا۔گیٹ پر تلاشی لی گئی۔ہماری آخری پونچی پیتل کا ایک تھال تھا جو یہاں چھیننے کی کوشش کی گئی مگر کافی منّت سماجت کے بعد یہ ہمیں واپس کردیا گیا۔بہادر گڑھ کیمپ میں ایک ماہ کے قریب عرصہ گزارنا پڑا۔ یہاں اسی دوران میں راشن کا حصول، لکڑی اور ایندھن اورکپڑوں کی نایابی کے مسائل نے بری طرح پریشان کررکھا۔راشن کامسئلہ تو اس طرح حل ہَوا کہ نانا مرحوم کسی نہ کسی طرح ایک سوروپے اپنے ساتھ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے اورایندھن کی ضرورت ایک کمرے کی چھت کی لکڑیاں ،کھڑکیاں اوردروازے توڑ کر پوری کی گئی۔رات کو پتھروں پر سوتے تھے اورصبح ادھر ادھر چل پھر کر اورگھوم کر بالآخر پاکستان آنے کے لئے گاڑی میں سوار ہوئے اورہزارہا پریشانیوں اورمصائب کا سامناکرنا پڑا۔پاکستان کی سرحدوں میں داخل ہوکر ہماری گاڑی کی منزل شاہ جیونہ (ضلع جھنگ) قرار پائی ۔لیکن گاڑی کے مسافروں نے جو تمام کے تمام پٹیالہ شہر کے رہنے والے تھے اس پر سخت اعتراض کیا جس کے نتیجہ میں گاڑی کا سفر جھنگ ریلوے سٹیشن پرختم ہوا۔یہاں مکان کاحصول سب سے پہلی ضرورت تھی۔لوگ دھڑا دھڑ مکانوں کے تالے توڑ رہے تھے۔مگر ہمارے شریف النفس نانا اس لاقانونیت پر آمادہ نہ ہوئے اوراس کی بجائے متعلقہ حکام کے دفاتر کاطواف کرنا پڑا۔اسی دوران میں جھنگ صدر کی ایک شاہراہ پر واقع گندے نالہ کے کنارے پر پڑاﺅ کرنا پڑا۔ہمارے پاس بوریوں کے بستر تھے اورتن ڈھانپنے کے لئے بھی بوریوں کاہی لباس ۔ادھر والد صاحب ضلع لائل پور کے ایک قصبہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تشریف لے آئے تھے جو جھنگ سے بیس میل کے فاصلہ پر تھا،پٹیالہ میں خون ریزی اورمار دھاڑ کی اطلاعات مل چُکی تھیں،وہ ہماری زندگی یاموت کے واقعات کے بارے میں معلومات لینے کے لئے جھنگ آئے۔میں اسی گندے نالے کے قریب کھڑا سڑک پر آنے جانے والوں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ مجھے سامنے سے ایک شنا سا صورت نظر آئی اوردفعتہ میرے منہ سے چیخ قسم کی آواز نکلی۔ابا جی!اباجی! میںوالد صاحب کی طرف بھاگا اوراُن سے لپٹ گیا۔میری آنکھوں میں آنسو تھے اورجب میں نے نظریں اٹھائیں اوردیکھا کہ فرط مسرت سے والد صاحب کی آنکھیں بھی آنسوﺅں سے تر ہو چکی تھیں۔
”پاکستان کوئی سَوکھا بنیا“
Aug 11, 2018