جنہیں زبان پر اختیار نہ ہو پارلیمنٹ نہیں جانا چاہیے نفرت انگیز تقریر کی سزا نااہلی ہے : چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ میں پمز میں غیر قانونی بھرتیوں اور منصوبوں سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے بھرتیوں سے پابندی اٹھانے کا حکم دے دیا، چیف جسٹس نے کہا کہ ہفتے یا اتوار کے روز پمز کا دورہ کروں گا اگر دورے پر اعتراض ہے تو چیک اپ کرانے چلا جاﺅنگا۔ پمز میں تعیناتیاں کچھ ٹھیک نہیں ہوئی تھیں ڈاکٹر وقار آفتاب نے اسلام آباد کی بہت خدمت کی ہے ڈاکٹر وقار نے کہا کہ پمز میں تین پراجیکٹ مکمل کیے ہیں جبکہ تین سو بیاسی نئی آسامیاں دی جائیں گی۔ پمز میں بہت سے مسائل حل ہو چکے ہیں اسلام آباد کے شہریوں کو اب طبی سہولیات پہلے سے بہتر مل رہی ہیں جبکہ پولی کلنیک میں ابھی تک مسائل ہیں ہم ڈاکٹر وقار کو پولی کلینک کا بھی پراجیکٹ دے دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے نیب کو ایاز خان نیازی کی گرفتاری سے روک دیا، ایاز خان نیازی کے خلاف کوئی اور کیس ہے تو آئندہ گرفتاری سے پہلے وارنٹ جاری کئے جائینگے۔ این آئی سی ایل سکینڈل کیس میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ کیسے سیاسی طور پر لوگوں کو باہر بھیج دیا جاتا ہے جسے پکڑنا تھا وہ تو ملک سے باہر بھاگ گیاجو پاکستان میں ہوتا ہے اسے گرفتار کرلیا جاتا ہے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دوران تحقیقات نیب لوگوں کو کیوں اٹھاکر لی جاتا ہے ہمیں معلوم ہے جو شخص آپ کی قید میں آجاتا ہے اسے نیب رگڑ دیتا ہے۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ ایاز خان نیازی کے خلاف دو انکوائریاں چل رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب مانگ لیا۔ عامر لیاقت کی عدم حاضری پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ عامر لیاقت حسین کی کامیابی کا نوٹی فکیشن معطل کر دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ایسا شخص جسے یہ معلوم نہیں ہے کہ پبلک فورم پر کیا بولنا ہے، کیا ایسے شخص کو پارلیمنٹ میں ہونا چاہئیے عام لوگوں کو ٹی وی کے ذریعے یہ سکھاتے ہیں۔ چیف جسٹس کے کہنے پر ڈاکٹر عامر لیاقت کے ایک پروگرام کا کلپ بھی عدالت میں چلوایاگیا جس میں انہوں نے ایک نجی ٹی وی چینل کے مالک کے خلاف بھی توہین آمیز زبان استعمال کی تھی۔ چیف جسٹس نے عامر لیاقت سے استفسار کیا کہ آپ نے توہین عدالت الفاظ کس کے لیے استعمال کیے عامر لیاقت حسین نے عدالت کے سامنے بولنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اسٹیج پر نہیں کھڑے ، عدالت میں یہ ڈرامہ نہیں چلے گا۔ جنہیں زبان پر اختیار نہیں انہیں پارلیمنٹ میں نہیں جانا چاہئے۔ سیاستدان نفرت انگیز تقریر کرے، منافرت پھیلائے تو سزا نااہلی ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کیلئے کس طرح کی زبان استعمال کرتے ہیں۔ دریں اثناءہاﺅسنگ سوسائٹی کیس کی سماعت کے دوران صدر بارایسو سی ایشن پیر کلیم خورشید نے عدالت کو بتایا کہ ہاﺅسنگ فانڈیشن اور بار ایسوسی ایشن کے درمیان راضی نامہ ہو گیا، ہاﺅسنگ سکیم کے ایوارڈ کا اعلان 14 دنوں میں کر دیا جائیگا۔
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...