انڈیا کا پہلے بھی کشمیر پر فوجی طاقت کے بل بوتے جابرانہ قبضہ تھا،اب انڈیاکی طرف سے مقبوضہ ریاست کو انڈیا میں مدغم کرنے کے فیصلے کے بعد انڈیا کو کشمیر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے بڑی تعداد میں مزید فوج متعین کرنا پڑ رہی ہے۔ انڈیا جموں میں تو ہندوئوں کو لا کر آباد کر سکتا ہے لیکن اس حوالے سے لداخ میں بہت مشکلات ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر میں انڈیا سے ہندوئوں کو لا کر بسانا انڈیا کے لئے ایک سہانا سپنا ہی ثابت ہو سکتا ہے۔ سالہا سال سے مقبوضہ کشمیر کے لوگوں میں انڈین فوج کا خوف بالکل ختم ہو چکا ہے۔نہتے کشمیری،بوڑھے ،بچے،جوان ،خواتین،لڑکیاں،کوئی بھی بھارتی فوج سے خوفزدہ نہیں ۔اب تو کشمیر کی بھارت نواز سیاسی رہنما بھی متحد و متفق ہیں کہ ان کا انڈیا کا ساتھ دینا غلط تھا۔
پاکستان کا کشمیر کے ساتھ اخوت پر مبنی ایک روائیتی تعلق ہے ۔عوام کے گہرے تعلقات، پنجاب، خیبر پختون خوا،سندھ بلوچستان میں لاکھوں کی تعداد میں کشمیری، متنازعہ ریاست کشمیر کے باشندے بستے ہیں۔ گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان کی انتظامیہ ، حکومتوں کی طر ف سے کشمیر کے مسئلے پر جذباتی اور نمائشی روئیے کا اظہار ایک رواج بن چکا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کے عوام میں کشمیر سے متعلق سیاسی سرگرمیوں میں عدم دلچسپی دیکھنے میں آتی ہے۔پاکستان کی انتظامیہ کو مقبوضہ کشمیر کی طرح آزاد کشمیر اور پاکستان میں بھی وہی کشمیری کشمیر کاز کی نمائندگی کے طور پر قبول ہیںجو اپنے دماغ کے بجائے احکامات اور ہدایات پر چلیں۔یعنی بالکل وہی اپروچ جو پاکستان کی انتظامیہ نے پاکستان کی سیاست میں اپنا رکھی ہے۔
کشمیر کی نئی ہنگامی صورتحال میں دیکھا گیا کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان میں حکومت،فوج ،ادارے، اپوزیشن سب '' ایک پیج'' پہ ہیں۔مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر سے متعلق انڈیا کے بدترین جارحانہ اقدامات کے حوالے سے پاکستان کی انتظامیہ اورحکومت ہی نہیں، اپوزیشن کا ردعمل بھی کمزوری کا واضح اظہار رکھتا ہے۔یہاں یہ تلخ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ کشمیر کاز کے حوالے سے ، فوجی آمریت کے مسلسل حاوی رہنے کی وجہ سے ہمارے سیاسی چہرے فہم و فراست، اخلاص اور رہنمائی سے قاصر نظر آتے ہیں۔
پاکستان کو یہ حقیقت تسلیم کرنا ہی ہو گی کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء سے مربوط معاملہ ہے اور اس حوالے سے کمزوری کے اظہار سے پاکستان کی سلامتی اور بقاء بھی سنگین خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ اب انڈیا نے متنازعہ ریاست کے اپنے زیر قبضہ جموں،لداخ اور کشمیر کو انڈیا میں مدغم کرتے ہوئے اپنے علاقائی اور عالمی عہد کی پامالی کی ہے۔ اس معاملے پہ پاکستان کی حقیقی طور پر سرگرم سفارتی مہم مسلسل طور پر جاری کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی یہ بھی اشد ضرورت ہے کہ کشمیر کاز سے متعلق پاکستان کی مختلف شعبوں کی پالیسیوں کو کلی طور پر غیر سیاسی بنیادوں، مخصوص اداروں کی صوابدید کے تحت یوں چلائے جانے کا سلسلہ ختم کیا جائے کہ جس میں کشمیریوں کو پاکستان کی سیاست کی طرح ،کٹھ پتلی کے انداز میں استعمال کیا جانا بھی شامل ہے ۔
مقبوضہ کشمیر کی موجودہ دھماکہ خیز اور خطرناک و تباہ کن صورتحال کے دو اہم پہلو ہیں اور دونوں یکساں توجہ کے متقاضی ہیں۔ایک یہ کہ عالمی اصطلاح کے مطابق انڈیا کے زیر قبضہ جموں و کشمیر اور لداخ کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر اور آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو پاکستان زیر انتظام کشمیر کہا اور لکھا جاتا ہے۔ مسئلہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادیں موجود ہیں۔ مودی حکومت سمیت انڈیا کا یہ عہد عالمی سطح پہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ دوطرفہ مسئلہ ہے اور اسے مزاکرات سے باہمی طور پہ حل کیا جائے گا۔
دوسرا پہلو انڈیا کی مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں کے خلاف تاریخ کی بدترین فوج کشی ہے۔مقبوضہ کشمیر کو ایک جیل بناتے ہوئے کشمیریوں کو مسلسل ظالمانہ اور جابرانہ طور پر سزایاب کیا جا رہا ہے۔اس پر پاکستان بات کیوں نہیں کرتا؟ انڈیا کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں نہتے لوگوں کے خلاف،کشمیر کی تاریخ کی بدترین فوج کشی کی موجودہ سنگین ترین صورتحال پر پاکستان اور دنیا خاموش،بے عمل کیوں ہے ؟ پاکستان کی انتظامیہ کیوں بات نہیں کرتی؟ پاکستان کے ٹی وی چینلز کیوں بات نہیں کرتے؟ نہ پاکستان کی انتظامیہ کشمیر سے متعلق اپنی خرابیوں کی اصلاح کر رہی ہے اور نہ ہی پاکستان کے سرکاری الیکڑانک میڈیااور نجی ٹی وی چینلز نے کشمیر سے متعلق سچائی اور سرگرمی کی راہ اپنائی ہے۔اس کی ایک مثال کہ وہی گھسے پٹے جملے، وہی یک زبان،ایک ہی ٹو ن اور ایک ہی رخ پہ بات کرنے والے لوگ ہی ٹی وی چینلز پہ جذباتی اور نمائشی انداز میں کشمیرپر بات کرتے نظر آتے ہیں۔
یہ بھی اہم ہے کہ آزاد کشمیر کو مقامی امور و مسائل میں مشغول و محدود رکھنے کے بجائے آزاد کشمیر حکومت کو تحریک آزادی کشمیر کی آزاد حکومت ،(جیسا کہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام عمل میں لایا گیا)کے طور پر حکومت پاکستان خود تسلیم کرے اور دوست ممالک سے بھی تسلیم کرانے جانے کی کوششیں کرے ۔ اس کے دفاع کے لئے پاکستان چین کی مدد بھی حاصل کر سکتا ہے۔آزاد کشمیر حکومت کو کشمیر کاز کے تقاضوں کے مطابق ڈھالتے ہوئے ان کے اس اختیار کو تسلیم کیا جائے،انہیں یہ اختیار دیا جائے۔ یہ انڈیا کے اقدام کے جواب میں ایک موثر کائونٹر اقدام ہوگا۔
پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کو تمام کشمیر کی نمائندہ آزاد حکومت کا مقام دینا اور تسلیم کرنا،انڈیا کے حالیہ اقدام کا ایک اچھا جواب ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ حقیقت مدنظر رکھی جائے کہ پاکستان کا ادارہ، کشمیر (آزاد کشمیر و مقبوضہ کشمیر میں کشمیری سیاست کو اسی طرح کنٹرولڈ انداز میں چلاتا ہے جس طرح کا طرز عمل اس کی طرف سے پاکستان کی سیاست کو کنٹرول کرتے ہوئے چلایا جانا ہے۔دوسری اہم حقیقت کہ آزاد کشمیر، آزاد کشمیر کی سیاسی جماعتیں،رہنما اس حوالے سے ذہنی اور عملی طور پر تیار نہیں ہیں کیونکہ کراچی معاہدہ کی بعد سے اب تک آزاد کشمیر کی سیاست مقامی امور و مفادات میں محدود و مقید چلی آ رہی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ انڈیا کے حالیہ اقدام کے جواب میں ایک سرگرم اور موثر جواب کی ضرورت ہے۔ پاکستان کی طرف سے آزاد حکومت کی اصل حیثیت اور کردار کی بحالی بہت اچھی بات ہے لیکن کیا موجودہ صورتحال میں ایسا نظر آتا ہے؟ پاکستان انتظامیہ سے یہ مطالبہ ضرور ہونا چاہئے کہ کیا آپ گزشتہ چند سالوں کی کشمیر پالیسی اور حکمت عملی پر اپنی غلطیوں،کوتاہیوں اور خرابیوں کو تسلیم اور ان کی اصلاح کا کوئی ذہن،ارادہ رکھتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ جواب یہی ہے کہ نہیں۔ پاکستان انتظامیہ اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتی کہ انہوں نے مسئلہ کشمیر،کشمیر کاز کے حوالے سے کچھ غلط کیا ہے اور وہ کشمیر سے متعلق اپنی سوچ،اپروچ اور طرز برتائو میں کوئی بہتری لا سکتے ہیں۔