ہر معقول توقع کے خلاف لیکن ہزاروں اندیشوں کے عین مطابق بھارت نے نہات ڈھٹائی، بے حیائی اور بین الاقوامی قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کی کاروائی اپنی قوم اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ایک دن کے اندر مکمل کر ڈالی۔ اس قدم کو اٹھانے سے پہلے بھارتی حکومت نے اپنی فوجوں کی موجودگی میں لاکھوں فوجیوں کا اضافہ کردیا اور سارے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو لگا د یا ہے لیکن کشمیر سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ ان واقعات سے چند دن پہلے تک کشمیر کی ساری قیادت یکجا ہوگئی تھی اور اس نے واضح پیغا م بھجوادیا تھا کہ نئی دلی کیطرف سے کشمیر کی حیثیت میں کسی رد و بدل کی کوشش آگ سے کھیلنے کی مترادف ہوگی۔ اس پس منظر میں یہ خام خیالی ہوگی کہ پانچ اگست کے اقدامات کبھی بھی کشمیریوں کو قابل قبول ہونگے۔ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیاں بتا رہی ہیں کہ سارا کشمیر ایک جیل بنادیا گیا ہے۔ اس جیل میں ایک ایسا لاوہ پک رہا ہے جو اگر پھٹ گیا تو اس خطے میں ایک بڑی تباہی برپا ہو جائیگی۔ کہا جا رہا ہے کہ کرفیو اٹھتے ہی سارے کشمیر میں احتجاج کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جائیگا۔
اس ساری صوتحال پر پاکستانی قوم شدید غم وغصے سے دوچار ہے۔ وہ ایک مایوسی سے گذر رہی ہے۔ ہمارا ردعمل ناکافی ہے۔ اس میں وہ اشارے نہیں ہیں جو اس گھمبیر صورتحال سے مطابقت رکھتے ہوں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کا پہاڑ ٹوٹنے والا ہے۔ ایک نہتی قوم ایک بڑی مسلح فوج سے برسر پیکار ہوگی۔ مواصلات کے تمام ذرائع بند کردیے گئے ہیں۔ صف اول کی قیادت کو حراست میں لے لیا گیا ہے اور سرینگر سے آگرہ منتقل کردیا گیا ہے۔ ڈیڑھ کڑوڑ عوام پر کرفیو مسلط کردیا گیا ہے۔ہم کو بھارتی حکومت کو اس کام سے روکنا چاہیے اور اس کیلئے ابتداً ہمیں تمام پر امن ذرائع کا استعمال کرنے چاہئیں۔ جس میں اقوام متحدہ میں اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھانا اور اس کے مستقل ارکان کو یہ بتا دینا چاہیے کہ اگر اس مسئلے کو حل کرنے میں بین الاقوامی برادری اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو ہم بھارت کو اس معاملے میں جارح قرار دینگے اور اس کے بعد ہم اپنے دفاع کا استحقاق رکھتے ہیں۔
مجلس شوری کا اجلاس اْس یکجہتی اور اتحاد کا مظاہرہ کیے بغیر ختم ہوگیا جو اس موقع کی ضرورت تھی۔ اس اجلاس کی کاروائی نے یہ بات واضح کردی ہے کہ آج ہماری سیاست جس غیر معمولی تقسیم سے دوچار ہے وہ مستقبل قریب میں درست ہوتی نظر نہیں آتی۔ ہمارے سامنے ایک ایسا دلدوز واقعہ ہوا جس نے سارے پاکستانیوں کے دلوں کو کاٹ کر ڈال دیا ہے۔ اس پر مرہم گزاری کی ضرورت تھی لیکن ہمارے رہنما یہ کام کرنے سے معذور رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے یقیناً حوصلہ افزا ء باتیں کی ہیں جو ہماری مسلح افواج نے بھی کی ہیں ۔ ہماری کشمیر بھائی برملا کہتے ہیں کہ متحد اور مضبوط پاکستان ان کا سب سے بڑا سہارا ہے، وہ ہمارے انتشار سے ناخوش اور مایوس ہونگے۔یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ بھارتی آئین اور بین الاقوامی قانون کی نظر میں ان اقدامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ بھار ت کا یہ گمان کہ کشمیر کو غیر ضروری طور پرخصوصی حیثیت دے دی گئی تھی جس کی اصلاح کرنا ضروری تھا ، ایک مضحکہ خیز خیال ہے۔ مہاراجہ سے زور زبردستی کرکے جس دستاویزِ الحاق پر بھارتی قیادت نے دستخط کروائے اگر اس کو درست بھی مان لیا جائے، اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی ایک طرف رکھ دیا جائے ، تو اس کی رو سے بھی بھارتی قدم سوائے ہٹ دھرمی اور طاقت کی بنیاد پر کچھ بھی کر گزرنے کی کی خواہش کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے۔ دستاویز الحاق نے بھارت کو صرف اور صرف تین موضوعات تفویض کیے تھے: دفاع، خارجہ امور اور مواصلات۔ اس نے یہ دستاویز پر بحیثیت ایک خود مختار (sovereign) حکمران کے دستخط کیے تھے اور آرٹیکل 370 ایک عارضی اہتمام تھا اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے کہ کشمیر کی منتخب اسمبلی ایک آئین تشکیل دے کر اپنی مرضی منشا سے یہ فیصلہ کریگی کہ وہ بھارت سے الحاق کرنا چاہتی ہے یا نہیں۔ یکطرفہ طور پر بھارتی پارلیمنٹ کو یہ استحقاق حاصل نہیں ہے کہ وہ اس آرٹیکل یا اسکے تحت کوئی ترمیم جو ریاستی اسمبلی کی منظوری سے کی گئی ہو اس کو ختم کردے۔
ابھی چند دن پہلے امریکہ کے صدر نے کشمیر کے معاملے میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں کشمیر پر ثالثی کرنے کی حامی بھری تھی۔ یقیناً اس میں یہ شرط شامل تھی کہ دونوں فریقوں کی مرضی شامل ہو۔ لیکن اس موقع پر قدرت نے یہ انتظام کیا کہ صدر ٹرمپ نے کشمیر کی مخدوش صورتحال پر حقیقت حال بیان کردی اور کہا کہ وادی میں ہر سو بمباری ہورہی ہے اور لوگ ہلاک ہورہے ہیں۔ اس کے علی الرغم، کجا یہ کہ اس ضمن میں کوئی پیش رفت ہوتی، امریگی ترجمان نے شروع میں جس تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کیا ہے وہ بہت قابل اعتراض تھا۔ بعد ازاں ایکدوسرے بیان میں امریکہ نے بھارت کے یکطرفہ اقدامات پر اپنی بڑھتی ہوئی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کہنا تھا کہ ان اقدامات سے خطے میں عدم استحکام پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ مزید یہ کہا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اس مسئلے کے حل کیلئے جلد مذاکرات کا آغاز کرنا چاہیے۔
چین نے جس بھرپور طریقے سے بھارتی اقدامات کی مذمت کی ہے اس نے ایک بار پھر یہ ثابت کردیا ہے کہ اس سے بڑا اور قدتی دوست پاکستان کو کوئی دوسرا ملک نہیں ہے۔ یہاں اس بات کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ اس صورتحال کا افغان امن کوششوں پر کیا اثرات پڑیں گے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب سے امن بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے، بھارت میں بے چینی اور بے اطمینانی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بھارت امن کے سلسلے کا مخالف تھا اور اس بات کاخواہاں تھا کہ طالبان سے جنگ جاری رہنی چاہیے۔ دوسروں کی جانوں پر لڑائی کی خواہش زیادہ دیر نہیں چلنی تھی۔ امریکی جانوں کا سلسلہ انیس سال سے جاری تھا جو اب بالآخر ختم ہونے والا ہے۔ بھارت نے افغانستان میں تین ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی اور اس کو وہاں کھلم کھلا پاکستان کے خلاف کاراوئیاں کرنے کی آزادی تھی۔نئے حالات میں اس کو حاصل یہ سہولت ختم ہوجائیگی۔ اس تناظر میں نہ صرف یہ اقدامات اس نقطہ نظر سے اٹھائے گئے ہیں کہ بگڑتے حالات میں وادی میں بھارتی تسلط کو درپیش چیلنجز کو کم کیا؎ جائے اور اس بات پر نظر رکھی جائے کہ افغان جنگ کے خاتمے کے بعد، 1989 کی طرح مجاہدین کی شکل میں کشمیری حریت پسندوں کو کوئی بیرونی کمک میسر نہ آجائے۔ یہ خوف کسقدر حقیقی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جموں کشمیر کے انسپکٹر جنرل پولیس کے راجندرا نے حال میں لکھے گئے ایک خط میں بھارتی حکومت کو خبردار کیا ہے کہ امریکی فوجوں کی واپسی کے اثرات بہت جلد وادی میں محسوس ہونے لگیں گے۔ اس سلسلے میں بھارت اس بات کی بھی کوشش کریگا کہ کابل میں ایک پائیدار حکومت قائم نہ ہونے پائے اور حالات اس نہج پر پہنچ جائیں جہاں وہ روس کی واپسی کے بعد سامنے آئے تھے اور ملک خانہ جنگی کا شکار ہوجائے جہاں وہ اپنی پسندیدہ قوتوں کی پشت پناہی اسطرح کرسکے جیسا شمالی اتحاد کیلئے کررہا تھا۔ پاکستان کو نہ صرف وادی میں کیے گئے بھارتی اقدامات سے نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے بلکہ بھارت کی ان کوششوں کا توڑ بھی کرنا ہے جو وہ افغان امن کے عمل کو سبوتاڑ کرنے کیلئے کریگا۔