پر امن پوٹھوہار خون میں نہاگیا ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے نواحی علاقوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں، قانون سے کھلواڑ کرنے والے عدل و انصاف کو عضو معطل بنا چکے ہیں ۔ چونترہ مدتوں سے علاقہ غیر بنا ہوا ہے لیکن اب حساس ایٹمی تنصیبات والی نیلور فیکٹری کے علاقے بھی قتل کی لرزہ خیز وارداتوں سے محفوظ نہیں رہے۔ ایسی ہی چشم پوشیوں، مجرمانہ لاپروائیوں سے معاشرتی زوال انتہا کو پہنچتا ہے ۔جمعہ 24 جولائی کو پولیس لائن ہیڈ کوارٹر زسے ڈیڑھ دوگھنٹے کی مسافت اور پولیس تھانہ چونترہ سے 7 سے 8 کلومیٹر کی دوری پر واقع میال گائوں معصوموں کا مقتل بن گیا۔ غصے، انتقام اور سفاکی اشرف المخلوقات کو کیسے حیوان اور درندے میں بدل دیتی ہے، اس روز ساری دنیا نے دہل جانے والے دل اور پرنم آنکھوں سے دیکھا۔ تحریک انصاف کے وزیر ہوا بازی غلام سرور خان اور طوطی بیاں نثار علی خان کاحلقہ ہے۔ چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الہی کی قیادت میں راجہ بشارت کابھی صوبائی حلقہ ہے جو صوبائی وزیر قانون ہیں۔
’’پرانی دشمنی‘‘ رشتوں کو کھاگئی۔ سانپ کا سنا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو کھاجاتا ہے لیکن چونترہ میں جو کچھ ہوا، شاید سانپ ندامت کے آنسو بہاتے کہیں زمین کی تاریکیوں میں اتر گئے ہونگے۔ خاندانی دشمنی نے انسان کو وحشی درندہ بنا دیا سفاک شخص نے ساتھیوں سمیت گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی جس کے نتیجے میں5 خواتین اور5 بچوں سمیت 10 افراد جاں بحق ہوگئے۔ 3 بچے زخمی ہوئے۔چند روز قبل اظہر نامی شخص نے گولی مار کر رب نوازکی بیوی قتل کردی۔ رب نواز اپنے مسلح ساتھیوں کے ہمراہ اظہر کے گھر گھس گیا اور فائرنگ کرکے معصوم بچوں سمیت پورے گھرانے کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔9سالہ مریم اور8سالہ محمد علی نے چارپائی کے نیچے چھپ کر جان بچائی۔
اظہر ،نذر، امتیاز گروپ اور رب نواز گروپ کون ہیں؟ یہ دراصل دو خاندان ہیں۔ ان میں زمین جائیدادکے تنازعے پرانی دشمنی میں بدل چکے ہیں۔ واقعہ کے تین روز قبل رب نواز کی بیوی قتل ہو ئی تھی۔ اندازہ کریں کہ قتل کس کا ہوا؟ اور قاتل کون ہیں؟ یہ آپس میں انتہائی قریبی عزیز ہیں لیکن باہمی رنجشوں نے ان قریبی عزیزوں کو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا بنادیا ۔ یہ ایک ہی خاندان میں نفرت کے لاوے کی تباہی نہیں۔ دراصل یہ معاشرے کا اصل چہرہ ہے جو پوری بے حیائی سے سامنے آگیا ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور صحافت کے پردے گراکر اب اسے چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سچ کہاجائے تو یہ ’’واردات‘‘ کے بعد ایک اور ’’واردات‘‘ ہے۔
سانحے اور المیے کو سمجھنے کیلئے یہ واقعہ مزید مددگار ثابت ہوتا ہے۔ علاقے کے بعض مکین خو نیں سانحے کی تمام ذمہ داری مقامی پولیس افسر پر ڈالتے ہیں۔ ان کا استدلال ہے کہ پولیس نے غفلت اور نااہلی کا مظا ہرہ کیا اور ’’افسران بالا‘‘ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ اگر پولیس بروقت علا قے میں پہنچ جا تی تو یہ خونیں کھیل نہ ہوتا۔ ایک رائے یہ سامنے آئی کہ پولیس کے اعلیٰ افسران ناتجربہ کار افسروں کو ’ایس۔ایچ۔او‘ لگا کر ’’نت نئے تجربات‘‘ کر رہے ہیں۔ لوگوں کی یہ شکایت سامنے آئی کہ ملزمان آدھا گھنٹہ خونیں کھیل کھیلتے رہے لیکن کوئی قریب بھی نہ پھٹکا۔ ایک رائے کے مطابق سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اس علاقے کے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ’ارتغرل‘ ثابت ہوئے تھے جنہوں نے تھانہ چونترہ کے علاقے میں مسلح گروہوں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرائی تھی۔ انکے بعد ایک بار پھر مسلح افراد نے یہاں اپنی ’’راجدھانیاں‘‘ منظم کرلی ہیں۔
علاقہ مکینوں نے یہ روح فرسا انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران کم وبیش بیس لوگ قتل ہوچکے ہیں۔ اس علاقے میں کلاشنکوف اور ’’بدمعاشی کلچر‘‘ عام ہے۔ جب ایک صحافی نے مقامی نوجوان سے سوال پوچھا کہ حکومت کے ساتھ اس علاقے میں کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں آئی تو سہمے ہوئے اس مکین کا کہنا تھا کہ ’’تبدیلی کوئی نہیں آئی ہے۔ بدمعاشی کلچر جیسے چل رہا تھا، ویسے ہی چل رہا ہے۔‘‘ ایک اور شخص نے یہ بھی بتایا کہ ’’نامزد ملزمان اور قتل کے اشتہاریوں کی کچھ عرصہ قبل شادیاں ہوئی ہیں۔ کھلے عام وہ موجود تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ انہیں کسی کا کوئی خوف اور ڈر نہیں۔‘‘
علاقے کے حالات کے بارے میں ایک اور شخص کا یہ کہنا تھا کہ ’’پورا علاقہ قبضہ مافیا کے قابو میں آچکا ہے۔ پہلے ڈکیتیاں ہوا کرتی تھیں لیکن اب زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے یہاں کا کاروبار حیات بن چکا ہے۔ جہاں کوئی جگہ نظرآئی، وہاں قبضہ کرلیا جاتا ہے اور باقی بیروزگار نوجوان وہاں پہنچ جاتے ہیں اور یوں ان کا روزگار اور کاروبار چل رہا ہے۔‘‘ ایک اور نوجوان نے یہ کہہ کر گویا دل ہی تلپٹ کر دیا کہ ’’آج کی نوجوان نسل کا یہی کام (دھندہ) ہے۔ جس طرف بھی جائیں گے، یہی سب چل رہا ہے۔ نوجوان اور کیا کررہے ہیں۔‘‘ (جاری)