73سال مکمل، قومی اسمبلی سربلندی آئین کی علامت ،مسلم لیگ ن کی قرارداد متفقہ منظور

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ‘وقائع نگار خصوصی) قومی اسمبلی کے 73 سال پورے ہونے پر اسکی کارکردگی اور خدمات پر قرارداد ایوان میں پیش کر دی گئی۔ قرارداد مسلم لیگ ن کے ایاز صادق نے پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کر لیا  گیا۔ قرارداد کے مطابق قومی اسمبلی ملک میں جمہوریت اور آئین کی سر بلند کی علامت ہے۔ قومی اسمبلی اتحاد کی علامت ہے۔ ایوان اس عزم کا اظہار کرتا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن بامعنی بحث کریں گے۔ پاکستان کو اقوام  عالم میں ممتاز مقام دلوانے میں ایوان کردار ادا کریگا۔ ایاز صادق نے کہا کہ آج ایوان میں جو ماحول ہوتا ہے اسے دیکھ کر میرے پوتے سوال کرتے ہیں باہمی عزت و احترام کا ماحول بنایا جائے۔ ایسا ماحول نہ بنائیں کہ ایک دوسرے کا سامنا نہ کر سکیں ۔ ملکر کوئی ضابطہ اخلاق بنا لیں کوئی ریڈ لائن کراس نہ کرے۔ علاوہ ازیں سمگلنگ کی روک  تھام آرڈیننس 2020ء میں توسیع کی منظوری دیدی ۔ مشیر پارلیمانی امور بابر اعوان نے سمگلنگ کی روک  تھام  آرڈیننس 2020ء  پیش کیا قومی اسمبلی نے محفوظ ٹرانزیکشنز ترمیمی آرڈیننس 2020ء توسیع کی منظوری دیدی۔ بابر اعوان نے محفوظ ٹرانزیکشنز ترمیمی آرڈیننس 2020ء ایوان میں پیش کیا ۔ پیپلز پارٹی کے رکن سید نوید قمر نے آرڈیننس پیش کرنے کی مخالفت کر دی۔ جے یو آئی (ف) کے مولانا اسعد محمود نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ میوچل اسسٹنس بل پر حکومت، اپوزیشن نے شکوہ کیا۔ ہمارا شکوہ ہے کہ ہم سے مشاورت نہیں کی گئی۔ ہم نے پیپلز پارٹی‘ ن لیگ  کو تجاویز دیں کہ وہ شامل کرا لیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ کمزور اعصاب کے مالک ہیں ۔ ملک میں خواجہ سراؤں پر پرتشدد حملوں سے  متعلق توجہ دلاؤ نوٹس قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ توجہ دلاؤ نوٹس اسما قدیر نے ایوان میں پیش کیا۔ پارلیمانی سیکرٹری لال چند ملہی نے توجہ دلاؤ نوٹس پر جواب میں کہا کہ اسلام آباد میں خواجہ سراؤں کے تین سال میں تین مقدمات ہوئے ملوث لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور مقدمات عدالتوں میں ہیں قانون سب کیلئے برابر ہے کوئی تعرف نہیں کی جاتی خواجہ سراؤں پر حملوں کا معاملہ صوبائی ایشو ہے۔ رہنما پیپلز پارٹی عبدالقادر پٹیل نے قومی اسمبلی اجلاس سے خطاب میں کہا ہے کہ اگر اپوزیشن کوئی کڑوی بات کر جاتی ہے تو اس کا پیار سے جواب دیا جاتا ہے۔ کہا گیا ہم غلام ہیں۔ ہاں ہم اصول پر قائم رہنے والوں کے غلام ہیں۔ ہم مادر جمہوریت بے نظیر بھٹو کی سوچ کے غلام ہیں۔ آپ ہماری قیادت کو بھگوڑا کہنے کے بعد ہم سے کیا امید رکھتے ہیں؟۔ کسی کے اشاروں پر اقتدار میں آنے کو جدوجد نہیں کہتے۔ جدوجہد کہنا آسان ہے کرنا مشکل ہے۔ موجودہ حکومت میں ملک میں 118 ارب روپے کی کرپشن ہوئی اس پر کوئی بات نہیں ہوئی۔ ہمارے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو پرچی والا کہا جاتا ہے۔ بلوچ رہنما اختر مینگل نے کہا ہے کہ حکومت کی بے حسی دیکھ کر افسوس ہوتا ہے۔ حالیہ بارشوں سے بلوچستان میں سخت نقصانات ہوئے سی پیک منصوبے کا اعلان ہوتا تو صدر اور وزیراعظم بھی وہاں ہوتے۔ بلوچستان میں چھوٹے ڈیمز بنائے جائیں۔ کیا کوئٹہ دھماکے پر کمشن رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی ؟ حالیہ بارشوں سے بلوچستان کی فصلیں اور گاؤں تباہ ہو گئے۔ تیل اور گیس کا معاملہ ہوتا تو  وہاں وزیروں کی دوڑیں لگی ہوتیں۔ لیکن ہماری لاشوں پر آنسو بہانے والا کوئی نہیں۔ بلوچستان میں جو زکوٰۃ میں ایک آدھ سڑک ملتی ہے وہ بھی بہہ جاتی ہے۔ وکلاء سے متعلق کمیشن بنا‘ اس کی رپورٹ کا حال  حمود الرحمان کمیشن جیسا ہوا۔ اس کمیشن کی رپورٹ کو کبھی ایوان میں زیر بحث لایا گیا اختلاف رائے کیلئے کسی کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت  نہیں۔ ہمیں  مسائل پر بات  کرنے کیلئے عوام نے ایوان میں بھیجا ہے۔ ہم اپنے علاقوں کے مسائل پر بات کریں گے اور حل  بھی کرائیں گے۔ ایوان میں تقریر نہیں کر سکتے تو ہمیں کٹھ پتلی بنا کر بٹھا دیا جائے۔ ملکی تاریخ میں اس کے کٹھ پتلوں نے چلائی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نوید قمر نے  مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کی قانون سازی کرنے بجائے آرڈیننس پرہی اکتفا کر رہی ہے۔ حکومت  نے چار مہینے اور وقت لے لیا ہے۔ جس کے بعد بابر اعوان نے مالیاتی ادارے (محفوظ  ٹرانزیکشنز) ( ترمیمی)  آرڈیننس2020   میں  بھی مزید 120دن کی توسیع سے متعلق  قرارداد پیش کی،  اس قرار داد کو  بھی  کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔ جبکہ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ  عمران خان کسی شارٹ کٹ سے نہیں آئے  20سال کی جدوجہد کے بعد عمران خان اس ایوان  میں وزیر اعظم بنے۔ پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میںہوا۔ اجلاس کے دوران اظہار خیال کرتے ہوئے  مولانا اسعد محمود نے کہا کہ قانون سازی کے حوالے سے ہمارا نکتہ  نظر عید سے قبل اجلاس میں بھی نہیں سنا گیا۔ وزیر خارجہ نے طویل  تقریر کی، اس دن بھی صورتحال ایسی بنی، ہمیں نہیں سنا گیا۔ وزیر مملکت  برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ اس ایوان  نے ثابت کیا ہے کہ  ہم اپنے  سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر نیشنل ایشوز پر اکٹھے ہو کر کام کر بھی سکتے ہیں۔ علی محمد خان نے کہا کہ کیا یہ میرے ان کروڑوں ووٹروں اور لاکھوں ورکروں کی توہین نہیں  ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ آپ کو یہاں کسی نے بٹھایا ہے۔ وزیرمملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کہا کہ آج آپ کو خوش ہونا چاہئے کہ پاکستان کا وزیر اعظم مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہے۔ عمران خان کسی شارٹ کٹ سے نہیں آئے  20سال کی جدوجہد کے بعد عمران خان اس ایوان  میں وزیر اعظم بنا۔  قومی اسمبلی میں حکومت نے پی ٹی وی کی لائسنس فیس میں اضافے کی خبروں کی تردید کر دی۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی  امورعلی محمد خان نے ہے کہ ہم نے ابھی فیس نہیں بڑھائی اگر بڑھانی ہو گی تو پہلے اس کا علان کیا جائے گا، ابھی تک کابینہ کی منظوری نہیں ملی۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے  پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان  نے کہا کہ ٹرانسجینڈرز کو احساس پروگرام کا حصہ بنایا گیا ہے، علی محمد خان نے کہا کہ فیس ٹی وی سیٹ رکھنے کی فیس ہے، حکومت نے اضافہ کیا ہی نہیں تو ہم کس چیز کی گارنٹی دیں ، ابھی تک کابینہ کی منظوری نہیں ملی، ٹی وی لائسنس فیس میں  اضافہ نہیں کیا ، مستقبل کی گارنٹی میں نہیں دے سکتا۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس  میں بات کرنے کے موقع نہ ملنے پر جے یو آئی (ف) نیپارلیمانی تاریخ میں پہلی بار قومی اسمبلی میں انوکھا احتجاج کیا۔ جے یو آئی کے ارکان اسمبلی  ایوان میں اپنی نشستوں  کے بجائے  سپیکر گیلری میں جا کر بیٹھ گئے۔ قومی اسمبلی کا  اجلاس 4 بج کر 10 منٹ پر شروع ہوا  ۔ سپیکر اسد قیصر نے جے یو آئی (ف) کے ارکان کو ایوان سے اٹھتے اور سپیکر گیلری کی طرف جاتے دیکھا۔ حکومتی چیف وہپ ملک عامر ڈوگر نے اعتراض کیا کہ ایسا نہیں ہو سکتا۔ ارکان گیلری میں نہیں بیٹھ سکتے۔ سپیکر قومی اسمبلی  نے احتجاج ختم کروانے کے لئے اجلاس 15 منٹ کے لئے ملتوی کیا۔ سپیکر سے مذاکرات کے بعد  جے یو آئی (ف) کے ارکان نے اپنا احتجاج ختم   کر دیا۔ پیر کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی صدارت میں شروع ہوا ، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس  میں بات کرنے کے موقع نہ ملنے پرجے یو آئی  کے ارکان اسمبلی  احتجاجا اپنی نشستوں  کے بجائے  سپیکر گیلری میں جا کر بیٹھ گئے، سپیکر قومی اسمبلی نے جے یو آئی کے ارکان  سے  کہا کہ ’’آپ ایوان کی توہین کر رہے ہیں، ایوان کی توہین نہ کریں، یہ رولز کی خلاف ورزی ہے ، اپنی نشستوں  پر جا کر بیٹھیں ، میں آپ کو بات کرنے کا موقع دیتا ہوں‘‘۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...