کراچی(سٹاف رپورٹر+صباح نیوز) سپریم کورٹ آف پاکستان نے کراچی کی تمام شاہراہوں سے تمام سائن بورڈزبل بورڈز فوری ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں حکومت اور سندھ میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد خان نے میئر کراچی کو جھاڑ پلا دی جبکہ کرنٹ لگنے کے واقعات پر سی ای او کے الیکٹرک کو فوری طلب کرلیا۔ پیر کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کراچی کے بلدیاتی مسائل اور تجاوزات سمیت غیر قانونی بل بورڈ گرنے کے واقعے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ کمشنر کراچی، مئیر وسیم اختر، ایڈووکیٹ جنرل سندھ، اورایس ایس پی سائوتھ سمیت دیگر اعلیٰ حکام بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس گلزار احمد نے اداروں کی ناقص کارکردگی پر شدید اظہار برہمی کا اظہار کیا۔ دوران سماعت انہوں نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے، سب سے زیادہ بل بورڈز رہائشی عمارتوں پر لگے ہیں۔ شارع فیصل پر عمارتیں دیکھیں اشتہار ہی اشتہار لگے ہیں، وہاں لوگ کیسے جیتے ہوں گے۔ پورے شہر میں بل بورڈ لگے ہوئے ہیں، ہر جگہ آپ کو بل بورڈز نظر آئیں گے، اگر یہ بل بورڈ گر گئے تو بہت نقصان ہوگا، عمارتوں پر اتنے بل بورڈز لگے ہیں کہ کھڑکیاں بند ہوگئی ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ یہ قانون کی خلاف ورزی ہے، حکومت کا کام ہے کہ بلڈنگ پلان پر عمل کرائے لیکن یہاںحکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، اگر کسی کے پاس پیسے ہیں تو وہ سب کر لیتا ہے، ہرآدمی خود مارشل لا بنا بیٹھا ہے، سندھ حکومت کی رٹ کہاں پر ہے؟ وکیل ڈی ایم سی نے عدالت کو بتایا کہ لوگ اپنے گھروں پر بل بورڈ لگا دیتے ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 5سال کی تحقیقات کراتے ہیں کس نے بل بورڈز لگائے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ایڈووکیٹ جنرل سے سوال کیا کہ کوئی ہے جو اس شہر کو صاف کرے؟ آپ کا آنا جانا اس جگہ سے ہے جہاں شہر صاف ہوتا ہے، یہاں بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوبتے ہیں، میری گاڑی کا پہیہ بھی گٹر میں چلا گیا تھا۔ کون ذمہ دار ہے اس صورتحال کا؟ کون ذمہ دار ہے ٹوٹی سڑکوں، کچرے اور اس تعفن کا، یہ بھی آپ لوگوں کا شہر ہے، مجھے تو لگتا ہے کراچی کے لوگوں کے ساتھ دشمنی ہے، لگتا ہے صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی شہر سے دشمنی ہے، کراچی کو بنانے والا اب تک کوئی نہیں آیا۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس میں کہا کہ میئر کراچی کہتے ہیں میرے پاس اختیارات نہیں، اگر اختیارات نہیں تو گھر جائو، کیوں میئر بنے بیٹھے ہو۔ اس موقع پر چیف جسٹس نے میئر کراچی سے سوال کیا کہ آپ کب جائیں گے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے جواب میں کہا کہ 28اگست کو مدت ختم ہوگی۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ جائوبھائی جان چھوڑو شہر کی۔ کراچی کے میئرز نے شہر کو تباہ کر دیا ہے، کراچی کو بنانے والا کوئی نہیں ہے، لوگ آتے ہیں جیب بھر کر چلے جاتے ہیں شہر کیلئے کوئی کچھ نہیں کرتا۔ وزراء بڑی بڑی گاڑیوں میں گھومتے ہیں، وزیر اعلی صرف ہیلی کاپٹر پر چکر لگاتے ہیں کرتے کچھ نہیں ہیں۔ جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیئے کہ کراچی میں بجلی کا بحران بھی بدترین ہوگیا ہے، سب ایک دوسرے کو مارنے پر تلے ہیں، روز آٹھ دس لوگ مر رہے ہیں اور نیپرا کچھ نہیں کر رہی ہے، جو کراچی کی بجلی بند کرتا ہے اس کو بند نہیں کرنے دیں گے، جسٹس گلزار نے ریمارکس میں کہا کہ کے الیکٹرک والے بھی یہاں مزے کر رہے ہیں، بجلی والوں نے باہر کا قرضہ کراچی سے نکالا ہے۔ ہر فرد جو جاں بحق ہوتا ہے کے الیکٹرک کے سی ای او کے خلاف مقدمہ درج ہونا چاہیے اور نام پوری کے الیکٹرک انتظامیہ کا نام ای سی ایل میں ڈالیں۔ عدالت نے ایس ایس پی سائوتھ سے استفسار کیا کہ ملزمان کہاں ہیں جن کی غفلت سے بل بورڈ گرا اور موٹر سائیکل سوار زخمی ہوئے۔ ایس ایس پی سائوتھ نے عدالت میں جواب دیا کہ ملزموں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ کیا ملزمان سمندر کے نیچے گئے ہیں؟۔ سپریم کورٹ نے ایس ایس پی سائوتھ کو حکم دیا کہ ملزمان کو آدھے گھنٹے میں ڈھونڈ کرلائو۔ معزز جج نے کمشنر کراچی کیساتھ مکالمے میں کہا کہ آپ کے شہر میں ہر جگہ بل بورڈز لگے ہیں۔ لوگ پبلک پراپرٹی کا نا جائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ذمہ داران کے خلاف کیا کیا گیا جو سوشل میڈیا پر چل رہا ہے؟۔ کمشنر کراچی نے جسٹس اعجاز الاحسن کوجواب دیا کہ یہ ایک مافیا ہے اور بہت سارے ادارے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے کمشنر کراچی سے مکالمہ میں کہا کہ سب کو فارغ کریں، آپ کے پاس اختیار ہے۔علاوہ ازیں چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے کو ہدایت کی ہے کہ سرکلر ریلوے اسی سال چلنی چاہیے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی سے متعلق سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا مؤقف مسترد کر دیا اور سیکرٹری ریلوے کی بھی سرزنش کی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے آپ کو سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے جو وقت دیا تھا وہ ختم ہو رہا ہے، ہم آپ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کریں گے۔سیکرٹری ٹرانسپورٹ نے عدالت کو بتایا کہ سرکلر ٹریک پر 24 مقامات پر پھاٹک تھے، ریلوے ٹریک کی بحالی کے بعد تمام راستے بند ہو سکتے تھے، 24 میں سے 10 مقامات پر انڈر اور اوور پاسز بنائیں جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ 10 پاسز ایسے ہیں جہاں 2000 سے زائد گاڑیوں کی آمدو رفت ہے، دیگر 14 پاسز پر کوئی ٹریفک نہیں ہوتی۔سیکرٹری ٹرانسپورٹ کا کہنا تھا کہ صرف 10 مقامات پر پاسز بنانے کی ضرورت ہے، 5 ارب روپے پاسز بنانے کے لیے مختص کیے ہیں، اسی ہفتے ٹینڈر کا عمل مکمل ہو جائے گا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اس ہی طرح وقت بڑھاتے جائیں گے یا عمل مکمل بھی ہوگا؟ سپر ہائی وے پر ابھی کام مکمل نہیں ہوا، آپ منصوبے میں 5 سے 10 سال لگا دیں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ کتنے وقت میں یہ گیٹ بن جائیں گے، جس پر سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ 6 ماہ کا وقت لگ جائے گا۔چیف جسٹس گلزار احمد نے سیکرٹری ریلوے سے کہا کہ یہ سوچ لیں کہ سرکلر ٹرین اس ہی سال چلنی ہے۔دریں اثناء سپریم کورٹ نے ہل پارک کی زمین پر قائم تمام غیر قانونی گھروں اور سکول کو گرانے کا حکم دے دیا۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں ہل پارک اراضی قبضہ کیس کی سماعت ہوئی۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک کی زمین مکمل واگزار کرانے کا حکم دیتے ہوئے نجی سکول کی عمارت کو گرانے کی ہدایت کی۔سماجی رہنما امبر علی بھائی نے عدالت کو بتایا کہ ہل پارک کی مجموعی زمین 56 ایکڑ ہے، پی ای سی ایچ ایس نے 4 بنگلے الاٹ کر دیئے، پہاڑی کاٹ کر بنگلے بنا دیے گیے۔کمشنر کراچی نے بتایا کہ یہاں پر 13 گھر بنائے گئے ہیں، مکینوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ای سی ایچ ایس نے تو نالوں پر ہی قبضہ کرا دیا، سارا کیا دھرا پی ای سی ایچ ایس کا ہے، سارے نالے ختم ہو گئے، شاہراہ قائدین کے ساتھ نالہ اب نظر ہی نہیں آتا۔سپریم کورٹ نے ہل پارک کی زمین پر قائم گھروں کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے کمشنر کراچی کو قبضہ ختم کرا کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔سپریم کورٹ نے کہا کہ الاٹیز رقم کی وصولی کے لیے متعلقہ اداروں سے رجوع کر سکتے ہیں۔